ایک خنزیر نے پوری مغربی دنیا کو شدید خوف میں مبتلا کردیا، اس میں ایسی کیا خوفناک بات ہے؟ جان کر آپ بھی کانپ اٹھیں گے

ایٹم بم یا ایٹمی میزائل کے بارے میں تو آپ نے سنا ہوگا لیکن سویڈن کے شمالی جنگلوں میں ایٹمی خنزیر کا انکشاف ہو اہے، جس نے صرف سویڈن ہی نہیں بلکہ ہمسایہ یورپی ممالک میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
اخبار ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف حال ہی میں اس وقت سامنے آیا جب شمالی جنگلوں میں شکار کئے گئے ایک خنزیر کے گوشت کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا۔ اس تجزئیے سے معلوم ہوا کہ سویڈن کے شمالی خطے کے جنگلوں میں پائے جانے والے خنزیر کے جسم میں ایٹمی تابکاری محفوظ حد سے 10 گنا زیادہ ہے۔
ماحولیاتی مشاورت فراہم کرنے والے ادارے ’کالونا‘ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اولف فرائیک مین نے سویڈن کے شمالی علاقوں میں جانے والے شکاریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس خنزیر کے قریب مت جائیں کیونکہ اس کے جسم میں تابکاری کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اپسالا اور گاول شہر کے درمیان واقع جنگلوں سے پکڑے گئے خنزیر کے گوشت کے تجزئیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں 16ہزاربیکرل فی کلوگرام تابکاری تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اتنی بڑی اور خطرناک مقدار میں تابکاری کا سراغ اس سے پہلے کبھی نہیں ملا۔ ان کی ٹیم نے رواں سال خنزیر کے گوشت کے کل 30 سے زائد نمونوں کا تجزیہ کیا ہے اور ان میں سے صرف چھ میں تابکاری محفوظ حد سے کم پائی گئی ہے۔
ماہرین نے خنزیر میں ایٹمی تابکاری پائے جانے کی وجہ 31 سال قبل موجودہ یوکرین، جو کہ اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا، کے شہر چرنوبل میں پیش آنے والے ایٹمی حادثے کو قرار دیا ہے۔ اس حادثے میںچرنوبل ایٹمی پلانٹ کے ری ایکٹر سے بڑے پیمانے پر تابکاری کا اخراج ہوا جس کی بھاری مقدار ہوا کے ساتھ سویڈن کے شمالی جنگلات کی جانب بھی چلی گئی تھی۔ تب سے اس علاقے کی زمین میں تابکار مادہ موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیزیم – 137 جیسے تابکار مادوں کی بھاری مقدار شمالی جنگلات کی زمین میں ابھی بھی موجود ہے۔ خنزیر عام طور پر زمین کھود کر پودوں کی جڑیں کھاتے ہیں جو ان کے جسم میں تابکاری منتقل ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے برعکس جو جانور درختوں کے پتوں پر گزارا کرتے ہیں ان میں تابکاری کی مقدار محفوظ حد سے نیچے پائی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں