امام غزالیؒ ان دنوں جس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے بادشاہِ وقت بھیس بدل کر انکے مدرسہ نظامیہ میں پہنچ گیا ۔۔اس نے طلبہ سے دریافت کرنا شروع کردیا کہ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے؟ سب نے مختلف جواب دیئے ۔کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
جب بادشاہ نے امام غزالیؒ سے پو چھا توآپؒ نے سب سے پہلے بادشاہ کو اسکے سوال کا جواب دینے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا وجوداور وحدانیت بدلیل عقل ونقل ثابت کیا۔انہوں نے یہبات اس لئے کی یہ شخص کہیں منکر نہ ہو۔پھر بادشاہ کے سوال کا جواب دیا’’ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں‘‘
بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے اپنا آپ ظاہر کرتے ہوئے کہا’’ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں گا۔اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کر نے والا نہیں ہے۔روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے ،مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں تو میری محنت اصول ہو گئی۔ اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں گا‘‘