مثال کے طور پر روز قیامت انسانی اعمال کے حساب وکتاب کے بارے میں قرآن کے دلائل عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں کے کبھی گلے نہیں اترے لیکن جدیدتحقیق سے یہ واضح ہوگیا کہ انسان جن حرکات کا مرتکب ہوتا ہے وہ سب فضا بسیط میں موجود رہتی ہیں، ان کو ایک کیسٹ میں بھر کر محفوظ رکھا سمجھنے اور غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ قرآن
شعور وآگہی کے مسلسل سفر میں کسی طرح حائل نہیں ہوتا بلکہ مظاہر کائنات کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے، اوٹاوہ یونیورسٹی کے فرانسیسی پروفیسر اور سرجن ڈاکٹر مورس بوکائلے کا تو دعویٰ ہے کہ ’’تخلیق کائنات کے بارے میں آج جتنے بھی قابل فہم نظریات دنیا میں رائج ہیں وہ سب قرآن حکیم کے بیان کئے ہوئے نظریہ کے عین مطابق ہیں اور یہ کہ قرآن پاک میں تسخیر کائنات، قدرتی تغیرات اور آسمانی مخلوق کے بارے میں جو کچھ کہا گیا جدید سائنسی تحقیق اسے تسلیم کرتی ہے‘‘، بوکائلے نے اپنی کتاب ’’بائبل ، قرآن اور سائنس‘‘ میں یہ بھی کہا ہے کہ قرآن میں ایسی خبریں موجود ہیں جو اس کے نزول کے وقت دستیاب نہیں تھیں اور کچھ ایسے پہلو بھی شامل ہیں جو چھٹی صدی مسیحی یعنی طلوع اسلام کے وقت عوام الناس کے تصورات کے منافی تھے اور ضرورت کے وقت دیکھا یا سنا جاسکتا ہے ،سیٹلائٹ نظام کے ذریعہ ہندوستان میں انجام دیئے جانے والے کام ہزاروں میل کے فاصلہ پر امریکہ، یوروپ اور افریقہ میں دیکھے جاسکتے ہیں تو کیا دنیا کا خالق ومالک اس پرقادر نہیں کہ وہ روز قیامت بندہ کو اس کے اعمال کا کیسٹ سنادیجس کو دنیا میں کراماً کاتبین (دونوں کاندھوں
پر جو فرشتے ہیں) نے ٹیپ کررکھا ہے اور بندہ بے ساختہ پکار اٹھے کہ مال ھذا الکتاب لایغادر صغیرۃ ولاکبیرۃ الا احصاھا (یہ کیسی کتاب (کیسٹ) ہے جو تمام چھوٹی بڑی باتوں کو شمار کئے جارہی ہے) (سورہ کہف)