اسلام آباد(ویب ڈیسک)اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) چائلڈ میرج بل (کم عمری کی شادی) کے مجوزہ پر کوئی واضح موقف نہیں لے سکی تاہم ساتھ ہی یہ تجویز پیش کی ہے کہ حکومت کو اس سلسلے میں آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں شادی کے لیے کم سے کم عمر کے تعین کا معاملہ جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں
زیر بحث ہے وہیں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس معاملے پر تذبذب کا ردعمل دیتے ہوئے 7 ماہ قبل لیے گئے اپنے پہلے فیصلے کا حوالہ دیا۔اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے کہا گیا کہ شادی کے لیے کم سے کم عمر کے تعین کا معاملہ متعدد اجلاسوں میں تفصیل سے زیر بحث آچکا ہے اور اس کی سفارشات 26 سے 27 ستمبر 2018 کو کونسل کے 212 اجلاس کے بعد سفارشات جاری کیں۔سی آئی آئی کے ڈائریکٹر جنرل برائے تحقیق ڈاکٹر انعام اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس وقت 10 صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں نہ صرف 12 مسلم ممالک میں شادی کے لیے عمر کے تعین کی تفصیل تھی بلکہ عمر کے تعین پر حمایت یا مخالفت میں اسلامک اسکالرز کے دلائل بھی دیے گئے تھے۔ڈاکٹر انعام اللہ کا کہنا تھا کہ ’ کونسل کی اعلیٰ سطح باڈی نے 3 گھنٹے کی مشاورت کے بعد اپنی سفارشات تیار کی جو مفتی اعظم پاکستان (مولانا محمد تقی عثمانی کے والد) مرحوم مولانا مفتی محمد شفیع کی رائے پر مبنی تھی کہ چائلڈ میرج کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کیونکہ یہ مختلف مسائل سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل نے تجویز دی کہ
حکومت کو چائلڈ میرج کی حوصلہ شکنی کے لیے اسلامی اسکالرز کی مدد سے لوگوں میں آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کم عمری کی شادی سے متعلق پیچیدگیوں میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے پاس دلہن کے نام کی رجسٹریشن بھی شامل ہے، اس کے علاوہ کم عمری کی شادیاں جدید دنیا میں قابل قبول نہیں۔تاہم اس کے ساتھ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ شادی بالغ ہونے کی عمر سے منسلک ہے اوراس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ازواجِ مطہرات کی کم عمری میں شادیوں کے متعدد حوالے بھی دیے گئے۔یہی اعتراض پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی محمد خان کی جانب سے اس وقت اٹھایا گیا تھا جب انہوں نے قومی اسمبلی میں اس بل کی مخالفت کی تھیاسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ ’کونسل کے اراکین کی رائے تھی کہ شادی کے لیے 18 سال کی عمر کی حد کا تعین کرنے کی قانون سازی سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی‘۔کونسل کی جانب سے تجویز دی گئی کہ حکومت کو ملک کے مختلف علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے رواج کی وجوہات کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس
اقدامات اٹھانے چاہیئں۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کو ’ان وجوہات جس کی وجہ سے پاکستان میں کچھ خاندان اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں‘۔اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ لڑکی کی بلوغت کی عمر کے بعد شادی کی جاسکتی ہے لیکن رخصتی لڑکی کے 18 سال کی عمر کے بعد ہونی چاہیے۔