ایک لڑکا جب تیرہ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بلایا اور ایک پتہ ہاتھ میں پکڑا کر بولا کہ جاؤ ادھر ایک بہت دانا آدمی رہتا ہے. اس کی حکمت دنیا بھر میں مشہور ہے.اس کے پاس جا کر اس سے یہ سیکھو کہ خوشی کیا ہے اور کیسے اسے پایا جا سکتا ہے. وہ لڑکا پتے کو سمجھنا شروع ہوا. وہ کسی صحرا میں ایک محل کا پتہ تھا. لڑکا نکل کھڑا ہوا. وہ چالیس دن
مسلسل صحرا میں سفر کرتا رہا.آخر کار وہ اس پتے پر پہنچ گیا. اس نے دیکھا تو سامنے ایک بہت عالی شان، وسیع و عریض محل بنا ہوا تھا.وہ محل کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ہلکی سی موسیقی لگی ہوئی تھی اور ارد گرد جوق در جوق لوگ جمع تھے. اس نے بالکل بھی یہ سب تصور نہیں کیا تھا. اس کا خیال تھا کہ اندر مکمل سناٹا ہو گا اور کوئی بوڑھا سا دانا بابا بیٹھا ہو گا جو اسے حکمت کی دو چار باتیں بتا کر چلتا کرے گا. ادھر تو ماحول ہی الگ تھا.اتنے ڈھیر سارے لوگ اور میزوں پر تھال کے تھال بھرے پڑے تھے. اتنے لزیز اور طرح طرح کے کھانے سجے تھے. اتنے میں وہ دانا آدمی آیا اور اس کو مخاطب کیا کہ تم ادھر نئے آئے ہو، کیا چاہیے ہے؟ لڑکے نے ساری کہانی سنا دی کہ میرے باپ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں خوشی کا مفہوم سیکھ کر واپس جاؤں.اس آدمی نے اسے بولا کہ دیکھ لو میرے کتنے مہمان آئے ہوئے ہیں، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے،تم ایک چمچہ ادھر سے اٹھاؤ اور اس میں دو قطرے زیتون کا تیل ڈالو. پھر وہ چمچہ اپنے سیدھے ہاتھ میں پکڑو. تم نے یہ تیل کسی صورت نیچے نہیں گرنے دینا. ساتھ میں میرا محل دیکھو. بہت خوبصورت بنایا ہے میں
نے. شاباش..ابھی جاؤ…جب محل دیکھ لو گے تو پھر میرے پاس آجانا. پر یاد رہے کہ تیل کی ایک بوند بھی نیچے نہ گرے.لڑکا گیا، میز پر سے ایک چمچ اٹھایا اور اس میں ایک پیالے سے دو قطرے زیتون کا تیل بھر لیا. پھر وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا، اتنی سیڑھیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں. ہر منزل پر ایک زبردست منظر بنا ہوا تھا. یہ ادھر ادھر پھرتا رہا اور پھر واپس آگیا. اس آدمی نے اسے دیکھا تو اپنے مہمانوں میں سے اٹھ آیا اور اسے بولا کہ ہاں بھئی اب ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے کیا کیا دیکھا؟لڑکا بولا کہ میں آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتا مجھے سارا وقت ان تیل کے قطروں کی فکر لگی رہی تھی اور میں کچھ بھی نہیں دیکھ پایا.میں اوپر گیا، نیچے آیا، کسی ایک چیز کو بھی آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا. اس آدمی نے مسکرا کر لڑکے کو بولا کہ جاؤ ایک دفعہ پھر سے جا کر سارے محل کا دورہ کرو. تمہیں پتہ ہے میں نے کتنے مہنگے مہنگے اور قیمتی فانوس بچھا رکھے ہیں. اور میں نے کتنے قیمتی فارسی قالینوں سے اپنا گھر سجایا ہوا ہے. میرا باغ جا کر دیکھو.دس سال لگا کر سب سے ماہر باغبان نے اسے اتنا نکھارا اور سنوارا ہے. میری لائیبریری جا کر دیکھو کتنی عالی
شان ہے ، ادھر جو کتابیں میں نے جمع کی ہیں وہ دیکھو کتنی قدیم اور قیمتی ہیں.جاؤ شاباش…لڑکا ہاتھ میں چمچ پکڑ کر اس میں پھر سے دو قطرے تیل ڈال کر چلا گیا. اس بار اس نے پورا محل بغور دیکھا اور یہ حیران ہو گیا. جب واپس لوٹا تو اس دانا آدمی نے اس سے پوچھا کہ اب کی بار کیا دیکھ کر آئے ہو؟لڑکے نے جواب دیا کہ میں نے دیکھا کہ کتنی بھانت بھانت کے پھول آپ نے باغ میں اکٹھے کیے ہوئے تھے. اتنے خوبصورت قالین، اتنے پیارے فانوس. میری تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں.آپ نے واقعی بہت زبر دست محل بنایا ہے. دانا آدمی نے پوچھا کہ چمچ کدھر ہے، اس لڑکے نے ہاتھ آگے کر کے دکھایا. دانا آدمی نے بولا ذرا دیکھو اس میں اب تیل ہے؟ لڑکے نے دیکھا تو چمچ خالی تھا.وہ شرمندہ ہوا اور اس نے بولا کہ میں باقی سب کچھ دیکھ رہا تھا کیونکہ آپ نے بولا تھا کہ جا کر سب کچھ دیکھو. اس حکمت کے بادشاہ نے بولا کہ بیٹے اب میری بات کو غور سے سمجھو کہ خوشی کیا ہے؟ تم جواتنی دور سےمیرے پاس یہ سبق سیکھنے آئے تھے کہ خوشی کا مفہوم کیا ہے… یہ ایک گہری بات ہے اور اسے سمجھانے کے لیے ہی میں نے تم سے یہ سب کچھ کروایا ہے.خوشی یہ ہے کہ اس چمچ سے
ایک قطرہ بھی نیچے نہیں گرنا چاہیے اور تم اس دوران جتنا کچھ دیکھ سکتے ہو اسے دیکھ بھی لو. تمہیں دونوں میں توازن برقرار رکھنا ہو گا. یہی زندگی کا مقصد ہے اور جب انسان اس مقصد کو کافی حد تک پا لیتا ہے تو وہ خوش اور مطمئن رہتا ہے.اس کہانی میں اصل سبق یہی تھا کہ چمچ میں دو قطرے تیل انسان کا ایمان ہے.اس ایمان کو خدا نے ہر انسان میں پرویا ہے. انسان در اصل سانچے ہیں. ہر سانچے میں یہ دو قطرے ایمان کے پروئے گئے جب ساری روحوں کو تخلیق کیا گیا.پھر رب نے سب کو اس دنیا کے امتحان میں ڈال دیا. اس دنیا کو خدا نے بہت حسین و جمیل بنایا تاکہ یہ ہماری آنکھیں خیرہ کر دے اور دل موہ لے. جب اس دنیا نے دل میں زیادہ گھر کر لیا تو ایمان کا بیڑہ غرق ہو جائے گا اور جب بھی ایمان نے دل میں زیادہ گھر کر لیا تو انسان اللہ کو مقرب ہو جائے گا.اللہ سے یہ مانگو کہ ایسی ہدایت دے کہ تم دنیا اور آخرت دونوں میں پر سکون زندگی بسر کر سکو. جو انسان ایمان اور دنیا میں توازن قائم کر لیتا ہے وہ قسمت کا دھنی بن جاتا ہے اور اسے سمجھ آجاتا ہے کہ خوشی کس نعمت کو بولتے ہیں کیونکہ وہ اسے محسوس کر لیتا ہے. جیسے اپنے پروردگار کا وجود انسان محسوس کر سکتا
ہے اسی طرح خوشی بھی ایک ایسا جزبہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ایمان اور دنیا کی رنگینی میں توازن رکھنا پڑتا ہے.