کیا کیجئے گا جب مادر علمی کے اساتذہ ہی اپنی خواتین شاگردوں پر نظر بد ڈالیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کی دو طالبات نے اپنے اساتذہ پر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا باعث شرم سخت الزام عائد کیا ہے۔دونوں طالبات نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر یونیوسٹی کے وائس چا نسلر سے ملاقات کر کے انہیں شکایت کی ۔ دوران گفتگو انہیں وہ ایس ایم ایس بھی
دکھائے جو اساتذہ نے انہیں کئے تھے۔اساتذہ کی ایک ہی خواہش تھی کہ طالبات ان کی خواہش کے سامنے سر خم کریں۔ طالبات نے یہ بات بھی کہی ہے کہ کئی طالبات کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے لیکن اپنی عزتوں پر دھبہ آنے کے خوف کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں۔ ان دونوں طالبات کی یہ شکایت سوشل میڈیا پر بھی گشت کر رہی ہے۔ اس شکایت میں دونوں کے نام موجود ہیں اور اساتذہ کے نام بھی درج کئے گئے ہیں۔ ان کی شکایت نے اس وقت اہمیت حاصل کر لی جب سپریم کورٹ کا نوٹس یونیورسٹی کو موصول ہوا کہ چیف جسٹس نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبات کو طلب کیا اور ذرائع کے مطابق انہیں سپریم کورٹ کو بھیجی گئی درخواست سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس اظہار میں اس بات کی نشان دہی بھی کی گئی کہ درخواست پر کسی کے دست خط ہی موجود نہیں ہیں۔ تماشہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے نوٹس سے قبل ہی انتظامیہ نے یونیورسٹی میں قائم خواتین تحفظ سیل کی سربراہی میں اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔جون کے مہینے میں تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے
اب تک تحقیقات مکمل نہیں کی ہے۔ جب معاملہ کمیٹی میں بھیجا ہی گیا ہے تو طالبات کی شکایت اپنی جگہ درست ہے تو پھر انہیں انتظامیہ نے سپریم کورٹ کےنوٹس کے بعد طلب کرکے بیان کیوں لیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست ہی نہیں دی ہے۔ سپریم کورٹ بھی غافل نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں معاملہ کو دبانے کے لئے کیا کیا حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ اگر یہ سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ بھی معاملہ پر یونیورسٹی کمیٹی کی طرح کمبل ڈال دے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ کمیٹی کیوں نہیں فوری طور پر تحقیقات کر سکی اور اسے کس بات کا انتظار ہے۔ہمارا معاشرہ اخلاقی جرأت کی شدید کمی کا بھی شکار ہے۔ امریکہ کے ایک سابق صدر پر جب حال ہی میں دو امریکی اداکاراؤں نے ان کی پشت پر ہاتھ لگانے کا مورد الزام ٹہرایا ہے۔ ترانوے سالہ سابق صدر سینئر بش کے ترجمان نے فوری وضاحت کرتے ہوئے معافی کی درخواست کی۔ یونیورسٹی ایسا کیوں نہیں کرتی کہ اساتذہ، ملازمین اور طلباء اور طالبات پر پابندی عائد کر ے کہ یونیورسٹی میں موبائل فون نہ لایا جائے۔کیا موبائل فون کے بغیر تعلیم ادھوری رہتی ہے۔
جنسی طور پر ہراساں کی جانے والی ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ اسے کہا گیا کہ اگر مضمون میں نمبر لینا ہے تو اپنا موبائل نمبر دو۔ موبائل فون اور فیس بک استعمال کرنے والی بھاری اکثریت کو علم ہی نہیں ہے کہ سائبر کرائم کا قانون موجود ہے جو صرف ایک شکایت پر حرکت میں لایا جاتا ہے ، شکایت پر ایف آئی اے فی الفور تحقیقات کرتی ہے ۔ ۔ یہ معاملہ بھی ہے کہ طالبات یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں یا کسی فیشن شو میں آتی ہیں۔بعض طالبات کے لباس دیکھ کر شرم آتی ہے۔آج کل ڈھیلی شلوار کی جگہ جس قسم کی ٹائٹ شلوار اور ضرورت سے زیادہ کھلے چاک اور کھلے گلے کا رواج ڈالا گیا ہے، وہ کسی طرح بھی زیر تعلیم طالبات کے لئے بہتر نہیں ہے۔ یونیورسٹی کو کیوں نہیں اساتذہ ، ملازمین اور طلباء ، طالبات کو لباس کا باقاعدہ پابند کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد ضلع جامشورو کی پولیس نے بھی کارروائی کا آغاز کر دیا کیوں کہ پولیس کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ پولیس کو طلب کرے تو ان کے پاس اپنی تحقیقات کا موجود ہونا بہتر ہوگا۔ پولیس نے یونیورسٹی میں قائم خواتین تحفظ سیل کا ریکارڈ اپنے قبضہ میں لیا تاکہ چھان بین کی جاسکے
کہ شکایت کے بعد کیا پیش رفت ہوئی تھی۔خواتین کو تحفظ کے لئے صوبائی حکومت نے بھی ملازم خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملہ پر ایک محتسب رکھا ہوا ہے، ضلع کی سطح پر ادارے کام کر رہے ہیں، یونیورسٹی کہتی ہے کہ اس نے خواتین تحفظ سیل قائم کیا ہوا ہے۔ کس کی کیا کارکردگی ہے، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ویسے بھی ہمارے معاشرہ میں بیٹیوں کو تعلیم دلانے میں والدین ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ان کی بیٹیوں کی عزتوں کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ سوالیہ انگلی پہلے اٹھتی ہے۔ یہ سوچا ہی نہیں جاتا کہ شکایت کرنے والی عورت درست ہی کہہ رہی ہوگی۔ معاشرہ چونکہ مردوں کے زیر اثر ہےجہاں ماں ، بیوی، بیٹی اور بہن کو ثانوی درجہ دیا جاتا ہے۔ مرد کی قدر کی جاتی ہے اور عورت کو محکوم سمجھ کر اس کی بات نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ مرد حضرات خواتین کو ابتداء میں ہی بد کردار قرار دینے میں عجلت سے کام لیتے ہوئے انہیں قابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ مرد کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ اس بے رحم معاشرہ میں خواتین کو موقعہ ہی نہیں دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی داستان بیان کر سکیں۔ طنز اور
نمک مرچ لگی کہانیاں زندگی کا روگ بنا دی جاتی ہیں۔سندھ یونیورسٹی صوبہ سندھ کی قدیم یونیورسٹی ہے۔ بلا شبہ ہزاروں کی تعداد میں مرد اور خواتین یہاں کے فارغ التحصیل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے رواج پڑ گیا ہے کہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء کو یونیورسٹی میں ہی ملازمت مل جاتی ہے۔ یونیورسٹی میں باون شعبہ جات میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں آج کل پچیس ہزار طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ صرف شعبہ انگریزی میں بارہ سو میں سے پانچ سو سے زائد طالبات ہیں۔ سوشل میڈیا پر طالبات کی شکایت آنے کے بعد ایک طرف تعلیم یافتہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یونیورسٹی کو بدنام نہ کیا جائے۔ اگر ایک یا دو اساتذہ نے کوئی غلطی کی ہے تو پوری یونیورسٹی اور طلباء برادری کو معتوب نہ کیا جائے۔ بات میں وزن ضرور ہے لیکن یہ بات بھی بے وزن نہیں ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو خراب کرتی ہے۔ اگرایک یا دو ا ساتذہ جن کے نام سوشل میڈیا پر موجود ہیں، قصور وار ہیں تو سامنے آکر معافی طلب کریں یا پھر اپنی ملازمت سے مستعفی ہوجائیں۔ ان کی استاد کی حیثیت مشکوک ہو گئی ہے، طالبات آئندہ بھی ان سے دور دور رہیں گی تو وہ اپنی ذمہ داریاں
کس طرح انجام دے سکیں گے۔ طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے حال ہی میں ایک جلوس کا اہتمام کیا جس کا نعرہ محفوظ یونیورسٹی دیا گیا۔ ایک طرف یونیورسٹی انتظامیہ نے جلوس نکالا دوسری طرف اسی دن طلباء کے ایک گروہ نے جلوس نکالا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبات کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہمارے تعلیم یافتہ افراد کا دیوالیہ پن یہ ہے کہ بعض افراد نے طالبات پر ذمہ دار اساتذہ کو معاف کرنے کے لئے دباؤ بھی ڈالا ہے۔کیوں ایسے لوگ مداخلت کر رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ طالبات اپنی شکایت سے دستبردار ہوجائیں۔ یہ تو اساتذہ کو بہتر معلوم کہ ہمارے معاشرہ میں اس قسم کی شکایت کے بعد والدین پہلا قدم یہ اٹھاتے ہیں کہ اپنی بیٹی کو درسگاہ سے نکال لیتے ہیں۔ والدین کیوں اپنی بیٹی کو کسی استاد کی ہوس کا نشانہ بننے دیں۔ ایسے اساتذہ کو کیوں خیال نہیں آتا کہ کسی والدین کے غصے کی بھینٹ بھی چڑھ سکتے ہیں۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نائلہ رند کی ہاسٹل میں خودکشی کے واقعہ کے بعد بھی والدین نے اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی آنے سے روک دیا تھا۔ والدین خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ بیٹی کا معاملہ ہے نہ جانے کیا ہوجائے۔ بعض
اور بڑے تعلیمی اداروں میں بھی طالبات کو اسی قسم کی شکایت ہیں لیکن اس کا عملی ازالہ کرنے میں کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے۔(تحریر علی حسن)