دو جہازوں کا گرنا، ایک پائلٹ کا گرفتار ہونا، یہ مودی کی سیاسی موت ہے۔ نریندر مودی کا سارا سیاسی سفر، موت، لاش، سازش اور دہشت پر مشتمل ہے۔ مودی نے گجرات میں موت کا کھیل کھیلا، لاشوں کی سیاست کے ذریعے مرکزی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، مودی انڈین اسٹیبلشمنٹ کا کس قدر پسندیدہ آدمی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس کا اعتراف
مودی خود کر چکا ہے۔مودی نے بھارتی وزیراعظم کے طور پر ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ وہ بنگلہ دیش بنانے والوں میں شامل ہے، اس کا مکتی باہنی سے تعلق رہا ہے۔ مودی نے جب یہ الفاظ کہے تو پاکستان میں نواز شریف کی حکومت تھی، کسی اور کی حکومت ہوتی تو وہ معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جاتا کیونکہ کسی ملک کے خلاف سازش کرنا، اسے توڑنا اور پھر اس کا اقرار کرنا عالمی قوانین کے تحت سنگین جرم ہے۔ نواز شریف یہ معاملہ کسی بھی عالمی فورم پر کیوں نہ لے جاسکے؟ اس کیوں کا جواب ذاتی دوستی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نریندر مودی اور اجیت کمار دوول، نواز شریف کے گھر آیا کرتے تھے، ان کے ساتھ کئی ایسے افراد ہوتے تھے جن سے پاکستانی وزارت داخلہ آگاہ نہیں ہوتی تھی۔ میتل سمیت کچھ سرمایہ دار لاعلمی کے ماحول میں مری چلے جاتے تھے۔ حال ہی میں کلبھوشن کی وکالت کرنے والے بھارتی وکیل نے میاں نواز شریف کے بیان کا حوالہ دیا ہے حالانکہ میاں صاحب کلبھوشن کا نام لینے سے ہمیشہ گریز کیا کرتے تھے۔ہندوستان پر اس وقت مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، انہوں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ
تھا۔دو دنوں میں خطے پر اجارہ داری کا خواب بکھر گیا ہے۔ اگرچہ پورے بھارت میں مودی پر تنقید ہو رہی ہےمگر کچھ خاص لوگ اجیت کمار دوول کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کررہے ہیں،شاید ان لوگوں کو بہت کچھ پتہ ہو لیکن اجیت کمار دوول تو آج کل دھول چاٹ رہا ہے، اسے مستقبل میں مزید دھول چاٹنا پڑے گی کیونکہ جو کسی کا برا سوچتا ہے اس کا اپنا برا ہو جاتا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ اجیت کمار دوول ہے کون؟ یہ ایک سازشی کردار ہے، کسی زمانے میں یہ را میں کام کرتا تھا،کبھی وزارت داخلہ میں ڈپٹی سیکرٹری تھا، آج کل بھارت میں قومی سلامتی کا مشیر ہے۔بھارتی وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ والا کمرہ اس کا ہے، یہ وہ واحد شخص ہے جو بغیر اجازت کے بھارتی وزیراعظم کے دفتر میں داخل ہو سکتاہے۔ اسی نے مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کو متعارف کروایا بلکہ آگے بڑھایا تھا،مفتی سعید کے بعد ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی بھی مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ رہی ہیں۔بھارت میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار دوول نے چند برس پہلے خطے میں بھارتی اجارہ داری کا ایک خاکہ تیار کیا،بجٹ رکھا، اس نے پاکستان کو تنگ کرنے کے لیے
افغانستان میں جگہ جگہ بھارتی قونصل خانے قائم کیے، ان قونصل خانوں میں را کے افسران بٹھا دیئے جن کا کام ہر وقت پاکستان کے خلاف سازشیں کرنا تھا، اس میں پاکستان میں دہشت گردی کروانا اور علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینا شامل تھا۔ اجیت کمار دوول، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں وہاں کے عوام کی خواہشات کے برعکس حکومتیں بنوانے میں کامیاب ہوگیا، پاکستان میں بھی اس نے کسی اور راستے سےان لوگوں کی مدد کی جو بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے، یہ نرم گوشے ہی کا نتیجہ تھا کہ نواز شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس شرکت نے کئی پاکستانیوں کی آنکھیں کھولیں۔ جب تک پاکستان میں نواز شریف حکومت رہی،مودی بے فکر رہا کیونکہ اس دوران پاکستان، بھارت کے خلاف ہر محاذ پر چپ رہا مگر اب پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہے جو کسی بھی بھارتی زیادتی پر خاموش نہیں رہے گی، اس کا مظاہرہ آپ حالیہ دنوں میں دیکھ چکے ہیں۔ اس مظاہرے کے باعث مودی سیاسی طور پر یتیم ہو گیا ہے،دو طیاروں اور ایک پائلٹ نے تو اسے مار گرایا ہے۔اجیت کمار دوول کے سارے خواب بکھر چکے ہیں،
خطے میں اجارہ داری تو دور کی بات خود اپنے ملک پر اجارہ داری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اجیت کمار دوول کے آخری خواب کو بھارتی سپریم کورٹ نے پورا کرنے کی کوشش تو کشمیر فوراً آزاد ہو جائے گا۔ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کا آرٹیکل 35اے ختم کیا تو آرٹیکل 370بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے دفاعی، خارجی اور مواصلاتی نظام کو دیکھتا ہے۔ ایسا 1947سے ہورہا ہے اس سے پہلے کشمیر ایک آزاد ریاست تھا۔ جہاں تک 35اے کی بات ہے تو1954میں نہرو اور شیخ عبداللہ نے اس کی صرف تجدید کی تھی ورنہ یہ حکم نامہ تو مہاراجہ نے اپریل 1927 میں دیا تھا جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری نہ تو کشمیر کا باشندہ بن سکتا ہے اور نہ ہی کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے۔مہاراجہ نے یہ حکم نامہ لوگوں کے پرزور احتجاج کے بعد جاری کیا تھا کیونکہ 1889ء میں ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان فارسی کی بجائے اردو کر دی گئی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی آنا ہے مگر اس سے پہلے ہی کشمیر کے کئی اضلاع بھارت کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں خاص طور پر چار جنوبی اضلاع جہاں
عورتیں بچے سب پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں کہ۔۔ یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت ۔۔ جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ (تحریر: مظہر عباس)