’گھر میں شادی کی شہنایاں، کزنز کی تالیاں اور ہلہ گلہ مچا ہوا تھا اور سب مہمانوں کی طرح میں بھی اس خوشی کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ پل بھر میں وہ سب آوازیں مجھے تکلیف دینے لگیں، دراصل اس شور و غل میں کچھ جملے میری طرف کسے جانے لگے جو مجھے تیر بن کر چبھنے لگے۔ میرے کزن مجھ پر ہوٹنگ کر رہے تھے، کوئی میری
آواز کا مذاق اڑانے لگا تو کوئی میرے بات کرنے کے انداز کا اور کوئی میرے چلنے کے طرز پر طنز کرنے لگا۔ میرا دل تو تب ٹوٹا جب ہمارے بڑوں میں سے کوئی ایک بھی مجھ پر ہونے والے اس ذہنی ٹارچر کو روکنے نہیں آیا۔‘پاکستانی معاشرے میں جہاں خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں وہیں خواجہ سرا بھی خود کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک نشا راؤ بھی ہے جو کراچی میں قانون کی طالب علم ہے۔ نشا اپنے ایل ایل بی پروگرام کے آخری سال کے امتحانات دے چکی ہے اور پرامید ہے کہ جلد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی، یعنی ایک وکیل بن جائے گی۔نشا کی زندگی میں یہاں تک کا سفر معاشرے کی ناانصافیوں اور دھتکار سے بھرپور ہے، لیکن وہ ایک باہمت انسان ہے جس نے ہر امتیاز کا خوش اسلوبی سے سامنا کیا اور اپنی منزل کی جانب گامزن رہی۔نشا بتاتی ہیں کہ ‘میں لاہور کے ایک نجی انگلش میڈیم اسکول میں عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل کررہی تھی۔ میرے والد نے مجھے اپنے باقی بہن بھائیوں کی طرح سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں دلوایا تھا۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ میں کچھ مختلف ہوں۔‘جب
نشا چھٹی کلاس میں پہنچی تو اسے احساس ہوا کہ وہ دیگر بچوں سے کافی مختلف ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ’مختلف ہونے کا اندازہ مجھے اپنے ہم جماعتوں کے رویوں اور دلچسپیوں میں فرق دیکھ کر ہوا۔ جیسے جیسے وقت گزرنے لگا تو ان کے رویے بھی بدلنے لگے۔‘جب وہ 8ویں جماعت میں پہنچی تو بچے اسے پریشان کرنے لگے، وہ اپنی تلخ یادوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ ’بچے ایک دن میرے گرد جمع ہوکر مجھے چڑانے لگے اور مجھ پر قہقہے لگاتے رہے۔ میں اس دن بہت ڈر گئی تھی۔ پھر تو یہ جیسے روزانہ کا معمول سا بن گیا۔ ڈر کا یہ عالم ہوتا کہ مجھ میں اپنے اساتذہ یا والدین سے بھی ان کی شکایت کرنے کی ہمت نہ رہتی۔ ایک بار میں نے ہمت کرکے ان لڑکوں کو جواب دینے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے بہت مارا پیٹا۔‘نشا کے والد نے اسے اسکول تو بھیجا مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی ویسے ویسے اس کا رویہ بھی دیگر لوگوں کی طرح بدلتا چلا گیا۔نشا بتاتی ہیں کہ ’میں پڑھائی میں اچھی تو تھی اور پڑھنا بھی چاہتی تھی مگر مجھے خواجہ سراؤں سے ملنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا دل چاہتا تھا، جس کی وجہ شاید میرے وجود میں ایک خواجہ سرا
کا ہونا تھا، اور انہی باتوں کی وجہ سے میرے والد بھی مجھے ناپسند کرنے لگے تھے۔‘نشا جب اسکول میں مشکل وقت گزارنے کے بعد کالج گئی تو اس نے کچھ سکون کا سانس لیا۔ مگر دشوار راستہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ ’12ویں کے بعد میں اپنے خاندان کو چھوڑ کر کراچی چلی آئی، پہلی بار کراچی آنے کے لیے میری بڑی بہن نے مدد کی۔ اس نے اپنے کانوں کے جھمکے بیچ کر مجھے کرایے کے پیسے دیے تھے۔ میں کراچی میں اپنی بچپن کی دوست اور ساتھی خواجہ سرا ‘سونا’ کے ساتھ 3 ماہ رہی، اور پھر واپسی اپنے گھر آگئی۔‘نشا یہ سوچ کر واپس چلی گئی تھی کہ رشتہ داروں کو اس کی کمی محسوس ہوئی ہوگی، لیکن یہ صرف خام خیالی ثابت ہوئی۔واپسی کے حوالے سے نشانہ بتاتی ہیں ‘میری واپسی پر محلے کے بچے مجھے چڑانے لگے کہ خواجہ سرا واپس آگیا۔ میں نے ان کو نظر انداز کیا، لیکن جب میں گھر پہنچی تو میرے اپنے ہی خاندان والوں کے لب و لہجے میں ناپسندیدگی واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ میں اپنے ہی گھر میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگی تھی۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی لیکن میرے اپنے ہی میرے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔ ان کے لیے میرا وجود
باعث شرمندگی تھا، ان سے کیا دل کی بات کہتی اور کیا مدد مانگتی۔ لہٰذا میں نے سونا سے رابطہ کیا اور حصول تعلیم میں میری مدد کرنے کے لیے کہا۔‘انسان کو اگر اپنوں کا ساتھ ہو تو وہ پورے زمانے سے لڑنے کو تیار ہوجاتا ہے لیکن نشا اکیلی تھی۔ مگر یہ اس کی ہمت اور حوصلہ ہی تھا کہ اس نے ایک بار پھر کراچی آنے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کا عزم کیا۔’ابتدائی دنوں میں کوئی ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے میں بھیک مانگنے پر مجبور تھی، مگر میرے دل میں حصولِ علم کا عزم ہمیشہ زندہ رہا۔ وہ وقت بہت دشوار تھا۔ بھیک مانگنا بھی کوئی آسان ہے؟ میں نے ہر ایک موڑ پر ذلت اور رسوائی برداشت کی لیکن حوصلے کو بلند ہی رکھا۔‘مالی وسائل نہ ہونے کے باعث اس مشکل دور کی کڑوی یادیں آج بھی نشا کے ذہن میں تازہ ہیں۔ ‘جب میں سگنلز پر کھڑی بھیک مانگتی تھی تو لوگ خاص طور پر آدمی بدتمیزی کرتے تھے، یہاں تک کہ ایسی ایسی حرکتیں کر جاتے تھے جو میں بیان بھی نہیں کرسکتی۔ بعص اوقات روڈ پر چلتے ہوئے لوگ ہاتھ لگاتے، کبھی کوئی گال کھینچ لیتا، کبھی کوئی دوپٹہ کھینچتا، لیکن ان بدترین حالات کے باوجود اگلے 5 سال تک بھیک مانگنے کا
سلسلہ جاری رکھا، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میں ہمیشہ کچھ پیسہ اپنی پڑھائی کے لیے بچاتی تھی، میرے ساتھی مجھ پر ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ میں پاگل ہوں جو کمیٹیوں کے پیسے جمع کرکے فیسوں میں ضائع کردیتی ہوں، اس طرح تو میں زندگی بھر بھیک ہی مانگتی رہوں گی مگر آج وہی لوگ مجھ پر فخر کرتے ہیں۔‘پھر نشا نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں داخلہ لے لیا۔ ’یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے ساتھ میں نے خود کو کسی حد تک مالی طور پر مضبوط کرنے کی غرض سے نجی ٹیوشن بھی فراہم کرنا شروع کردیں تاکہ گھر کا کرایہ، یونیورسٹی کی فیس ادا کرسکوں اور کتابیں خرید سکوں، لیکن زیادہ پیسے جمع نہیں ہوپاتے تھے اور آخر میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑ جاتے تھے۔ میں نے 2013ء میں سیاسیات میں ماسٹرز مکمل کرلیا۔ مجھے اپنی زندگی میں کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جتنی تقسیم اسناد کی تقریب کے دن ہوئی۔‘ماسٹرز کرنے کے باوجود نشا بے روزگار ہی رہی، ظاہر ہے جس وجود کو سماج اپنا حصہ نہ سمجھے اسے بھلا کون باعزت کام دے گا؟ نا چاہتے ہوئے بھی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے اسے ایک بار
بھیک پر گزارا کرنا پڑا۔جب آپ پختہ عزم کے ساتھ کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو راستے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ نشا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ’بھیک مانگنے کے دوران میری ملاقات ایک اسے شخص سے ہوئی، جس نے لا کالج میں داخلہ کرانے میں میری مدد کی بلکہ یوں کہیے کہ میری کامیابی کے پیچھے اس کا بڑا ہاتھ ہے۔‘وہ مزید بتاتی ہے کہ ’میں نے 2015ء میں سندھ مسلم گورنمنٹ لا کالج میں داخلہ لیا تھا۔ میں نے حال ہی میں اپنے آخری سال کے امتحانات دیے ہیں اور اب میں نتائج کا انتظار کر رہی ہوں۔ پھر میں اپنی ایل ایل بی ڈگری حاصل کروں گی۔ میں جج بننا چاہتی ہوں شاید یہ ناممکن سی بات ہے لیکن انسان کے ہاتھ میں کوشش کرنا ہے اور میں اپنی جدوجہد میں ذرا سی بھی کسر نہیں چھوڑوں گی۔‘بلند حوصلے اور ارادوں میں وہ صرف اپنی ذات تک ہی محدود نظر نہیں آتی بلکہ اپنی کمیونٹی کے لیے بھی کام کرنا چاہتی ہے۔ ’میں اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کرتی ہوں، کسی کو پولیس لے جائے یا کسی کا کوئی لیگل کام ہو تو وہ میرے پاس آتے ہیں، کیونکہ وہ مجھے اپنا سمجھتے ہیں اور مجھے ان کے کام آنا اچھا لگتا ہے۔ جس طرح میری
مدد ہوئی تو میں بھی دوسروں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔‘وہ کہتی ہے کہ ’گزشتہ چند سالوں میں میری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم میرے رشتہ دار ہیں جو پہلے مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، لیکن اب وہی مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘اس وقت نشا ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے ساتھ ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں، اس کے علاوہ وہ فافین کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔کیا انسان کا مرد یا عورت ہونا اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں! اسی طرح اس کا خواجہ سرا ہونا بھی اس کے ہاتھ میں نہیں۔ جب خالقِ کائنات نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو ہم انسان کون ہوتے ہیں کسی کی تذلیل کرنے والے یا اس کو کمتر سمجھنے والے؟نشا جیسے کئی خواجہ سرا ہوں گے جو ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ یا اساتذہ بننا چاہتے ہیں، مگر معاشرے کی امتیاز پسندی جانے کتنے خواجہ سراؤں کے خواب چکنا چور کردیتی ہے بلکہ جینا حرام کردیتی ہے۔