صوبہ پنجاب، تاریخ گواہ ہے پنجاب جاگتا ہے توپورا پاکستان جاگ جاتا ہے، سیاسی ہوں یا انقلابی تحریکیں جنہوں نے پنجاب سے جنم لیا، ہمیشہ کامیابیوں نے ان کے قدم چومے،اسی طرح سیاست کودیکھا جائے توپنجاب نے جس کا ساتھ دیا پاکستان نے بھی اسی کا ساتھ دیاجس نے پنجاب کو فتح کیا ،اسی نے وفاق کو بھی اپنے قابو میں کیا،لیکن جس کو پنجاب کے عوام
نے رد کردیا ،وہ کہیں کا نہ رہا،تحریک انصاف کی سیاست سے اقتدار کے ایوانوں تک سیاسی جدوجہد 22سالوں پر محیط ہے، اس طویل مدت میں جب تک پنجاب نے پی ٹی آئی کو سہارا نہیں دیا ،پی ٹی آئی وفاق میں حکومت بنانے کے خواب کی تکمیل نہ کر سکی، لیکن عام انتخابات 2018ء میں جب پنجاب نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا تواقتدار کا راستہ بھی ہموار ہوگیا،اس بات کا اندازہ پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی نشستوں سے لگایا جاسکتا ہے،قومی اسمبلی کے 342کے ایوان میں پی ٹی آئی کی پنجاب سے سب سے زیادہ66نشستیںہیں، پنجاب کے مقابلے میں سندھ 16، بلوچستان 2، خیبرپختونخواہ ،فاٹا36 اور 3اسلام آبادسے نشستیں جیتی ہیں۔اگر پنجاب پی ٹی آئی کو اتنی بڑی تعداد میں نشستیں نہ دیتا توپی ٹی آئی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملاکر بھی وفاقی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوتی،لیکن افسوس! جس پنجاب نے پی ٹی آئی کو اقتدار دیا،اسی تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے، صوبے کے چیف ایگزیکٹو سے لیکرصوبائی کابینہ تک کارکردگی صفر، وزراء میاں اسلم اقبال ،محمود الرشید ،ہاشم ڈوگر،ڈاکٹر یاسمین راشد ،حافظ ممتاز احمد،نعمان احمد
لنگڑیال کاجمع تفریق اور بیان سے بازی سے لوگوں کوتسلیاں ،دلاسے دینے کا سلسلہ بھرپور انداز میں جاری ہے،اب وزراء کی بیان بازی سے عوام بھی بیزار ہوتی جا رہی ہے،چند محکموں یا وزارتوں کے باقی سب فارغ، کوئی پالیسی نہیں ہے، آج ایک پالیسی بنتی ہے تو دوچار دن میں ہی تیسری پالیسی کا اعلان کردیا جاتا ہے، ترقی کا پیمانہ سمجھی جانے والی وزارتیں صحت و تعلیم، لیکن دونوں میں کوئی مثبت پیش قدمی نہیں ہوئی، حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے، ڈاکٹر ہڑتالوں پر، مریضوں کو بنیادی طبی سہولیات ہی میسر نہیں، ڈاکٹر یاسمین راشد پیشہ کے لحاظ سے خود ڈاکٹر ہیں،متحرک بھی ہیں، لیکن اس کے باوجودپنجاب کے دوردرازکے علاقے تودور، لاہور کے ہسپتالوں میں ہی مریض پریشانی میں مبتلا ہیں، اسی طرح محکمہ تعلیم کو دیکھیں تووہاں برا حال ہے،کوئی تعلیمی پالیسی نہیں ، اندازہ لگائیں محکمہ تعلیم کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ تعلیمی سال مارچ میں شروع ہوگا، جس کے پیش نظرامتحانی شیڈول جاری ہوگیا، مختلف کلاسزکے 2،2پرچے بھی ہوگئے،اسی دوران وزیرتعلیم مراد راس پریس کانفرنس کرکے نئی تعلیمی پالیسی جاری کرتے ہیں کہ ماضی کی
طرح اپریل میں ہی تعلیمی سال شروع ہوگا، میاں محمود الرشید کی وزارت ہائوسنگ پر نظرڈالیں تو وہاں بھی یہی کچھ نظر آئے گا،کیا وزارت ہائوسنگ کا کام صرف نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کو ہی دیکھنا ہے، یا شہری آبادی کے پھیلائو کے تناسب سے اربن ڈویلپمنٹ کیلئے پالیسیاں بنانا بھی ہے؟ میاں اسلم اقبال کی وزارت انڈسٹریز اینڈ کامرس کو دیکھیں تو اس کی کارکردگی ناقص، اسی طرح وزارت خزانہ ہاشم جوان بخت کے حالات ہیں۔ کہا گیا تھا کہ ہرتین ماہ بعد وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا،حکومتی محکموں یا وزارتوں کی پالیسیاں نہ بننے سے جو نقصان ہورہا ہے ، کیا یہ کرپشن کے ذمرے میں نہیں آتا؟میڈیا کا کام تنقید برائے اصلاح ہے،مقصدعوامی مسائل کی جانب حکومتی توجہ دلاناہے،وفاقی حکومت کا کام وفاق کی حد تک ہے لیکن پنجاب کے امور کو چلانے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی کابینہ اور اتحادی جماعت ق لیگ کو ساتھ بٹھا کرعوامی مفادات میں پالیسی مرتب کرنا ہوگی،چودھری برادران حکومت کے ساتھ ہیں،وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بڑے فیصلہ لینا ہوں گے، وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی مشاورت سے
پنجاب کی تعمیروترقی کا سفر شروع کردینا چاہیے۔(تحریر: ندیم بسرا )