کم از کم جانتے بوجھتے تو زہر مت کھائیں،دن میں کتنی بارکھانا کھاناچاہیے؟اگرآپ اچھی صحت چاہتے ہیں تویہ خبرضرور پڑھ لیں

یہ گوگل بھی کمال کی چیز ہے۔ ایک لفظ ٹائپ کریں تو ہزار نہیں لاکھوں کروڑوں اطلاعات کا دروازہ آپ پر کھول دیتا ہے۔ ایسے ہی گوگل پر گھومتے گھامتے حکیم محمد سعید کی تصویر پر نظر پڑگئی۔ حکیم سعید کیا کمال آدمی تھے جو اپنی تحریروں اور گفتگو میں اکثر قوم کو بسیار خوری سے گریز کا مشورہ دیتے۔ اپنے تجربات اور تحقیق کی روشنی میں وہ اس بات

پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ انسان کو دن میں 3 بار نہیں بلکہ 24 گھنٹے میں صرف 2 بار کھانا تناول کرنا چاہیے۔قوم لیکن ہماری دھن کی ایسی پکی ہے کہ حکیم صاحب کی بات پر کان تک نہیں دھرا۔ پیٹ بھر کر نہیں ٹھونس ٹھونس کر ہم کھاتے ہیں اور پھر حکیموں کی پھکیاں اور ڈاکٹروں کی رنگ برنگی مہنگی دوائیاں کھا کر ہم خود کو امیر اور بڑا آدمی سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے خاکسار کو رات گئے شدید پیچس کی شکایت لاحق ہوئی۔ دن چڑھے نقاہت اس قدر بڑھ گئی کہ پانی کا گلاس ہاتھ میں لینا ممکن نہ رہا۔ جیسے تیسے کرکے ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور پھر ان کے نسخے کے مطابق ایک بڑے اسٹور سے ہزار آٹھ سو روپے کی دوائیں لے کر گھر پہنچا۔اسی دوران فیصل آباد سے ایک دوست ڈاکٹر شفیق نے رابطہ کیا۔ پوچھا کیسے ہو؟ کہا مر رہا ہوں۔ کہنے لگے کیا ہوا؟ صورتحال بتائی تو کہنے لگے ہرگز کوئی دوا لینے کی ضرورت نہیں۔ آج کل یہ بیماری وائرل ہے، کھانے پینے میں احتیاط کرو خاص طور پر ابلا ہوا پانی پیو۔ جو ہونا تھا سو ہوچکا، اگر حاجت محسوس ہو تو 2 گولیاں Lomotil کی کھالینا اور بس۔ خدا گواہ ہے دوائیں ایک طرف رکھ دیں اور دوپہر تک بھلا

چنگا ہوگیا۔ہمارے معاشرے میں کھانے کے اطوار اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ دنیا میں کہیں نہ بگڑے ہوں گے۔ دنیا بھر میں انسان جسم کو درکار غذا ناپ تول کر کھاتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ زبان کے چسکے کے لیے بے تحاشا کھاتے چلے جاتے ہیں۔گئے وقتوں میں ہمارے دن کا آغاز گھر کی سادہ روٹی یا دیسی گھی کے پراٹھے کے ساتھ اچار، گُڑ، انڈے یا رات کے بنے سالن سے ہوتا تھا، میٹھی لسی اس وقت بھی عیاشی شمار ہوتی تھی۔ یہ غذا ہضم کرنا اس لیے آسان تھا کہ انسانی معمولات میں جسمانی محنت کو بہت دخل تھا۔ پھر یوں ہوا کہ روٹی کارپوریشن آف پاکستان آگئی اور ڈبل روٹی کھانا فیشن بن گیا۔ زمانے نے ترقی کی اور مشینی دور میں انسان کی جسمانی مشقت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اسکول کے بچوں کو تو مائیں جیسے تیسے کرکے کچھ کھانا کھلا دیتی ہیں لیکن کالجز اور جامعات میں زیرِ تعلیم طلبا کی بڑی تعداد ناشتہ کرنا ترک کرچکی ہے۔ یونیورسٹی یا کالج کی کینٹین پر بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا بھی ’اسٹیٹس سمبل‘ بن چکا ہے۔آج کل ہم میں سے اکثریت کے دن کا آغاز حلوہ پوری، سری پائے، مغز، ہریسا، روغنی نان چنے، نہاری یا گھر ہی میں بنے بناسپتی کے پراٹھوں

سے ہوتا ہے۔ پراٹھے بھی اس آٹے کے جس میں سے سوجی میدہ اور چوکر نکال لیا جاتا ہے اور اس میں غذائیت برائے نام ہی رہ جاتی ہے۔ گرما گرم ناشتے کے بعد ٹھنڈی یخ لسی پی کر ہم میں سے بہت سے لوگ راحت محسوس کرتے ہیں۔ ناشتے کے بعد دفتر میں ہم موسم کے مطابق ایئر کنڈیشن دفاتر میں آرام دہ کرسیوں میں قید ہوجاتے ہیں جہاں سے شام 5 بجے ہی رہائی نصیب ہوتی ہے۔بہت سے تو ایسے ہیں جو رات گئے تک کام کرتے ہیں۔ دفتروں میں مصروف افراد کی اکثریت دوپہر میں برگر، پیزا اور فرنچ فرائز نہایت خشوع و خضوع سے کھاتی ہے اور اس کے بعد کولا مشروبات تو لازمی ہیں۔ جن کی آمدنی ذرا کم ہے وہ ذرا کم درجے کے ریسٹورینٹ سے چکن بریانی، نہاری یا پلاؤ منگوا لیتے ہیں۔سہہ پہر کی چائے کے ساتھ سموسے پکوڑے نہ ہوں تو فریز کیے ہوئے چکن رول یا چکن نگٹس سے گزارا چل جاتا ہے۔ شام کو امرا کی اکثریت اپنی حیثیت کے مطابق ہوٹلوں میں بنے ریسٹورنٹ سے غیر معیاری بناسپتی گھی یا تیل میں بنا کھانا کھاتی ہے۔کچھ ایسے ہیں جو کابلی پلاؤ، بریانی یا حلیم کھاتے ہیں۔ کھانا آپ سڑک کنارے ڈھابے سے کھائیں یا کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے ریسٹورنٹ

سے اس کے اوپر تیرتا ہوا تیل آپ کو دیکھنے میں تو بہت خوشنما اور کھانے میں ذائقے دار لگتا ہے لیکن ہم میں سے کسی نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ چکنائی ہماری صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے۔ کھانا اگر گھر کا بھی بنا ہو تو اس میں جس قدر گھی یا تیل کا استعمال ہم کرتے ہیں شاید ہی دنیا میں اس قدر کوئی کرتا ہو۔کچھ عرصے پہلے سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ویجی ٹیبل آئل استعمال کرنے والے ملکوں میں پاکستان دنیا بھر میں 7ویں نمبر پر ہے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر چین، بھارت اور امریکا ہیں۔ اب ذرا ان تینوں ملکوں کی آبادی آپ گوگل سے دیکھ لیں۔ طبی نقطہ نگاہ سے ایک انسان کو 24 گھنٹے میں تقریباََ 3 چمچ چکنائی استعمال کرنی چاہیے لیکن ہر انسان خود جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ 24 گھنٹے میں کتنا گھی یا خوردنی تیل استعمال کرتا ہے۔ایک نئی بیماری انرجی ڈرنکس کے نام سے ہم نے ایجاد کرلی ہے۔ غنیمت ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی اس حوالے سے عوام میں آگاہی اور ان ڈرنکس کی فروخت سے متعلق کچھ قاعدے قانون پر عملدرآمد کی کوشش کر رہی ہے لیکن وفاقی دارالحکومت اور باقی صوبوں میں تو یہ بھی نہیں۔امریکا میں

موٹاپے کی شرح 36 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان کا حال یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے تحقیقی جنرل کے مطابق پاکستان میں 20 اعشاریہ 8 فیصد افراد کا وزن ان کی عمر اور قد کی مناسبت سے زیادہ ہے۔ موٹاپا پاکستان میں وبائی مرض کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ مشقت سے دوری، ورزش نہ کرنا اور بغیر سوچے سمجھے بسیار خوری کا نتیجہ ہے۔ اوپر سے ہمارے ہاں اس بات کا شعور ہی موجود نہیں کہ موٹاپا بھی کوئی بیماری ہے بلکہ ہم اس کو صحت اور معاشرے میں مرتبے کی علامت سمجھتے ہیں۔بہت کم ڈاکٹرز ایسے ہیں جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کھانا کم کھائیں اور ورزش کو اپنی عادت بنائیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ذیابیطس، بلند فشار خون، دل اور جوڑوں کے امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آج سے چند سال قبل تک ہارٹ اٹیک بڑھاپے کی بیماری سمجھی جاتی تھی لیکن اب تو 20 سے 25 سال کی عمر میں دل کے دورے سے مرنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں اور ذیابیطس تو اب بچوں میں بھی عام ہے۔ایک ذاتی تجربے کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ کوئی 8 ماہ قبل میں نے بڑھتے ہوئے پیٹ کے پیش نظر ایک فٹنس سینٹر سے رابطہ کیا۔

تربیت دینے والے نے پہلے دن ہی بتا دیا کہ فاسٹ فوڈ، کولا مشروبات اور چکنائی سے بھرپور کھانے بھول جائیں۔ روزانہ ورزش اور کھانے میں احتیاط کی بدولت صرف 6 ماہ میں، مَیں نے اپنا وزن 10 کلو گرام کم کیا اور اب میں پہلے سے زیادہ صحت مند اور تر و تازہ محسوس کرتا ہوں۔لیکن کمال دیکھیے کہ اب لوگ مجھے فٹ کہنے کے بجائے یہی پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ بیمار لگ رہے ہیں، خیریت تو ہے؟ کیا جواب دوں کہ اب ہی تو صحت مند ہوا ہوں۔تو پیارے پاکستانیو! غذا کے نام پر زہر مت کھائیں۔ آپ نے اگر بیماریوں سے پاک صحت مند اور خوشگوار زندگی گزارنی ہے تو روزانہ کم از کم 30 سے 45 منٹ تک ورزش کو اپنا شعار بنائیں اور کھانا صرف اتنا کھائیں جتنی آپ کے بدن کو ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں