پاکستان تحریک انصاف نے شاہی خاندانوںکو خوشخبری سنادی،وزیر اعظم نے کون سی مشکل آسان کردی؟

کراچی(ویب ڈیسک) وفاقی حکومت نے عرب ریاستوں کے شاہی خاندانوں کو سندھ میں سال 19-2018 کے درمیان بین الاقوامی سطح پر محفوظ قرار دیے گئے پرندے تلور کا شکار کرنے کے لیے مزید 13 خصوصی اجازت نامے جاری کردیے۔جن افراد کو اجازت نامے جاری کیے گئے ان میں ایک بادشاہ، ایک صدر ولی عہد، ان کے چچا، کزنز اور سعودی

عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے مسلح افواج کے سربراہان شامل ہیں۔ان میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو پاکستانی تحقیقاتی ادارے کے مطابق مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اسکینڈل میں ملوث ہے۔یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ دورِ حکومت میں وفاقی حکومت کی جانب سے عرب شاہی خاندانوں کو تلور کے شکار کے لیے اجازت نامے جاری کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں خیبرپختونخوا میں شکار کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت تھی۔چناچہ شکار کے اجازت نامے ہونے کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے جانوروں کے تحفظ کے سخت موقف کے باعث شکار کی اجات نہیں دی گئی تھی۔تاہم اب جبکہ ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وفاقی حکومت نے شاہی خاندانوں کو تلور کے سندھ میں شکار کے اجازت نامے جاری کردیے۔ذرائع کے مطابق بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ ماحولیات، جنوبی ایشیا کے صدر ملک امین اسلم، جو مشیر برائے ماحولیات بھی ہیں، نے خلیجی شاہی خاندانوں کو تلور کے شکار کے اجازت

نامے دے کر توقع کے برخلاف کام کیا۔وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے پرندے تلور، موسمِ سرما میں سردی سے بچنے کے لیے جنوب کی جانب ہجرت کر جاتے ہیں۔قبل ازیں یہ پرندے ہجرت کے دوران جزیرہ نما عرب کے اوپر پرواز کرتے تھے لیکن عرب شکاریوں کے بے انتہا شکار کے باعث یہ وہاں نہیں جاتا اور موسمِ سرما میں پاکستان میں ہی قیام کرتے ہیں۔واضح رہے کہ اس کی خصوصی حیثیت اور تیزی سے گھٹتی آبادی کی وجہ سے اسے نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستانی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے۔اس کے باوجود حکومت عرب ریاستوں کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے لیکن پاکستانی شکاریوں کو اس کے شکار کی اجازت نہیں۔تاہم یہ پہلا موقع نہیں جب تلور کے شکار کے اجازت نامے جاری ہوئے ہوں بلکہ سابقہ حکومتیں بھی عرب خاندانوں کو تلور کے شکار کے اجازت نامے دیتی رہی ہیں۔وزارت خارجہ کے ڈپٹی چیف پروٹوکول افسر محمد عدیل پرویز کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامے کے لحاظ سے شکاریوں کے لیے مختص علاقے درج ذیل

ہیں:بحرین کے شاہ شیخ حماد بن سلمان الخلیفہ کو جامشورو، تھانو بلا خان، کوٹری، منجھند اور سیہون کے علاقے، متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابو ظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زید النہیان، ابو ظہبی کے ولی عہد اور یو اے ای کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر جنرل شیخ محمد بن زید النہیان کو سکھر اور نواب شاہ میں شکار کی اجازت دی گئی۔اسی طرح سعودی عرب کے شہزادے منصور بن محمد کو کشمور، بـحرین کے بادشاہ شیخ ابراہیم بن حماد بن عبداللہ الخلیفہ کے انکل کو سجاول میں تحصیل شاہ بندر میں، ان کے دفاعی مشیر شیخ عبداللہ بن سلمان الخلیفہ کو سجاول کی تحصیل جاتی میں، بادشاہ کے کزن اور بحرین کے وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل شیخ راشد بن عبداللہ الخلیفہ کو نوشہرو فیروز میں شکار کی اجازت دی گئی۔اس کے ساتھ حیدرآباد اورضلع ملیر( ملیر کنٹونمنٹ اور دھابیجی کے علاوہ) شاہ بحرین کے کزن شیخ احمد بن الخلیفہ کے لیے مختص کیے گئے، یو اے ای کے نائب وزیر اعظم شیخ سلطان بن زید النہیان کو خیر پور(کوٹ ڈیجی اور نارا نہر کے علاوہ)، ابوظہبی کے حکمران کے نمائندے شیخ حمدان بن زید النہیان کو خیر پور میں نتھان شاہ، جوہی، دادو میں

فرید آباد، لاڑکانہ میں غیبی ڈیرو، شہداد کوٹ اور خیر پور(نارا نہر سے آگے) کے علاقے دیے گئے۔اسی طرح دبئی پولیس کے نائب سربراہ اور شاہی خاندان کے رکن لیفٹیننٹ جنرل شیخ احمد بن راشد المکتوم کو مٹھی، ننگرپارکر سمیت تھرپارکر(محفوظ علاقے کو چھوڑ کر) اور عمر کوٹ کی اجازت دی گئی۔دبئی کے شاہی خاندان کے ایک اور رکن شیخ راشد بن خلیفہ المکتوم کو ضلع بدین ، ٹھٹھہ میں جنگ شاہی۔ملیر میں دھابیجی جبکہ میرپورخاص کو علاقہ قطر کے حکمران خاندان شیخ عبدالرحمٰن بن حماد التہانی کے لیے مختص کیا گیا۔علاوہ ازیں یو اے ای کے شہری اور سمٹ بینک کے سربراہ ناصر عبداللہ لوطہ کو شاہ بندر اور جنگ شاہی کے علاوہ ٹھٹھہ کے علاقوں میں شکار کی اجازت دی گئی، واضح رہے کہ یہی وہ فرد ہیں جنہیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ میں ملوث قرار دے رکھا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں