پاکستان میں کتنی خواتین اپنا حمل ضائع کرواتی ہیں اور ان میں سے کتنے فیصد خواتین کو پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ایسی رپورٹ سامنے آ گئی کہ پاکستانیوں کے ہوش اڑ جائیں گے

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں اسقاط حمل کی شرح ایسی ہوشربا حد کو چھورہی ہے کہ لگتا ہے جیسے یہاں اسقاط حمل کو ’برتھ کنٹرول‘ کے طریقے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہو۔ اس حوالے سے امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو نے ایک رپورٹ میں ایسے انکشافات کیے ہیں کہ سن کر پاکستانی دم بخود رہ جائیں گے۔ ایکسپریس ٹربیون کے مطابق

ریڈیو نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں 48فیصد حمل غیرارادی ہوتے ہیں،جن میں سے 54فیصد اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کروا دیئے جاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اسقاط حمل عطائی ڈاکٹروں، نرسوں اور دائیوں کے ہاتھوں انتہائی غیرمحفوظ طریقے سے انجام پاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسقاط حمل کرانے والی تمام خواتین میںسے ایک تہائی کو بعد ازاں سنگین نوعیت کی طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے جسم سے بہت زیادہ خون بہنا شروع ہو جاتا ہے، بچے دانی میں سوراخ ہو جاتے ہیں اور وہ مہلک انفیکشنز کا شکار ہو جاتی ہیں۔پاکستان میں غیرارادی حمل کی اتنی زیادہ شرح کی وجہ بیان کرتے ہوئے امریکی ریڈیو کا کہنا تھا کہ ”پاکستان میں مانع حمل ادویات استعمال کرنے کی شرح انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے خواتین غیرارادی طور پر حاملہ ہو جاتی ہیں۔حالیہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (2017-18)کے مطابق صرف 34فیصد شادی شدہ پاکستانی خواتین کسی طرح کی فیملی پلاننگ استعمال کرتی ہیں۔ ان میں سے بھی صرف 25فیصد اسقاط حمل کے جدید طریقے برتتی ہیں، باقی انہی غیرمو¿ثر یا نیم مو¿ثر روایتی

طریقوں (بچے کو دودھ پلاتے رہنا وغیرہ)پر انحصار کرتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں