4کپتان بدلنے کے باوجودآخرکار کراچی کنگز کے حالات کیوں نہ بدلے؟

اگر یہ کہا جائے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ پشاور زلمی نے جہاں اہم مقابلے میں کراچی کنگز کو 44 رنز سے شکست دی وہیں اس کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے، کیونکہ پوری طرح گرفت حاصل کرنے کے بعد کراچی نے مقابلے کو آسانی سے ہاتھوں سے نکلنے دیا۔ لیکن اصل مسئلہ محض یہ ایک شکست نہیں بلکہ یہ ہے کہ کراچی کنگز کی تمام کمزوریاں اب کھل

کر سامنے آ گئی ہیں۔سب سے پہلی کمزوری جو جمعرات کی شب سب نے دیکھ لی وہ کراچی کی کمزور بیٹنگ لائن اپ تھی۔ اس وقت ٹیم میں بابر اعظم کے سوا کوئی ایسا بلے باز نظر نہیں آتا جو قابلِ بھروسہ ہونے کے ساتھ ساتھ اِن فارم بھی ہو۔ کراچی کنگز کے کپتان عماد وسیم نے تو ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں بیٹنگ میں اتنا دم خم ہے کہ وہ کوئی بھی ہدف حاصل کرسکتی ہے۔لیکن پہلے میچ میں 82 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے کے بعد لیام لوینگسٹن کا بلّا خاموش ہوچکا ہے جو اس مقابلے میں تو صفر پر ہی آؤٹ ہوگئے۔ نہ پہلی بار آزمائے گئے بین ڈنک چلے حالانکہ وہ ابھی بگ بیش لیگ کے فائنل میں نصف سنچری بنا کر آئے تھے۔ کولن انگرام کی سیزن میں تیسری اننگز بھی مایوس کن رہی لیکن کراچی کو اصل دھچکا پہنچا بابر اعظم کے رن آؤٹ سے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب کنگز کے ہاتھ پیر پھولنا شروع ہوگئے کیونکہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ہدف کے تعاقب میں اپنے سب سے اہم کھلاڑی سے محروم ہوچکے ہیں۔کراچی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیٹنگ لائن اتنی طویل نہیں جتنی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز یا پشاور زلمی کی ہے۔ خود

دیکھ لیں، لیام لوینگسٹن اور بابر اعظم اوپنر، ان کے بعد کولن انگرام اور پھر روی بوپارا یا بین ڈنک، ان سے نیچے نیم بلّے باز سکندر رضا اور محمد رضوان یعنی چوتھی وکٹ گر جائے تو کنگز کے مستند بلے باز ختم ہوجاتے ہیں۔پھر کرکٹ، یا کسی بھی کھیل، میں ضروری ہوتا ہے کہ جب حریف سب سے کمزور حالت میں ہو، تب اس پر سخت وار کیا جائے۔ کراچی کنگز نے پشاور کے خلاف آغاز بہت عمدہ لیا، ابتدائی 10 اوورز میں پشاور کو صرف 56 رنز بنانے دیے اور اس کی 4 وکٹیں بھی لیں۔ اس مرحلے پر کراچی کی پوزیشن بہت مضبوط تھی لیکن وہ بھرپور وار نہیں کر پائے اور پشاور کو مقابلے میں واپس آنے کا موقع دے دیا۔جس کے بعد اگلے 10 اوورز میں زلمی نے 97 رنز کا اضافہ کیا، جن میں آخری اوور میں بننے والے 17 رنز بھی شامل تھے۔ 154 رنز کا ہدف بظاہر تو مشکل نظر نہیں آتا لیکن ابتدائی دھچکوں کے بعد کراچی جیسی کمزور بیٹنگ لائن کے لیے اس کا حصول بھی ناممکنات میں سے ایک ہوگیا۔ بدترین بیٹنگ کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کراچی کی پوری اننگز میں ایک چھکا تک شامل نہیں تھا۔بہرحال، نیوزی لینڈ کے کولن منرو کی آمد سے

کراچی کنگز کو مزید سہارا مل سکتا ہے اور سیزن کے دوران ٹرانسفر ونڈو کھلنے سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں روی بوپارا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ کنگز میں سے اگر کسی ایک کھلاڑی میں میچ فنش کرنے کی صلاحیت ہے، تو وہ روی میں ہی ہیں۔ ان کے علاوہ کوچنگ عملے کو بھی اب ذرا ہوش میں آجانا چاہیے۔کراچی کنگزمیں قیادت شعیب ملک سے روی بوپارا اور پھر کمار سنگاکارا سے ہوتی ہوئی عماد وسیم تک آئی ہے یعنی اب تک 4 کپتان بدلے جاچکے ہیں لیکن حالات میں تبدیلی نہیں دکھائی دی۔ اب یہ کوچ مکی آرتھر اور پریزیڈنٹ وسیم اکرم کا بہت بڑا امتحان ہے کہ ٹیم کو اس دلدل سے باہر نکالیں کیونکہ ٹیم میدانِ عمل میں تو اچھی کارکردگی نہیں دکھا پا رہی بلکہ کاغذ پر بھی اتنی مضبوط نہیں دکھائی دیتی۔ کھلاڑیوں کے باہمی تال میل کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے ورنہ اگلے مقابلے میں مزید ایسے ہی بھیانک رن آؤٹس دیکھنے کو ملیں گے اور نتیجہ ہوگا وہی ڈھاک کے تین پات!اب پاکستان سپر لیگ کا تقریباً ایک تہائی حصہ مکمل ہوگیا ہے کیونکہ تمام ٹیموں نے پہلے مرحلے کے اپنے 10، 10 میچز میں سے 3 کھیل لیے ہیں۔ لہٰذا اب پوزیشن

کچھ ایسی ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز تمام مقابلے جیت کر سب سے اوپر ہیں جبکہ پشاور زلمی نے اپنے 3 میں سے 2 میچز جیت لیے ہیں اور دوسری پوزیشن پر براجمان ہے۔ باقی تمام ٹیموں نے اپنے 3، 3 میں سے صرف ایک کامیابی حاصل کی ہے اور رن ریٹ کے فرق سے ایک دوسرے سے پیچھے ہیں۔ ملتان تیسرے نمبر پر ہے اور اس کے پیچھے ہیں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور کراچی کنگز جبکہ ہمیشہ کی طرح آخری نمبر پر ہے لاہور قلندرز کہ جو ایک مقابلے میں صرف 78 رنز پر ڈھیر ہو کر اپنے رن ریٹ کا اچھا خاصا بیڑا غرق بھی کرچکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں