لاہور (ویب ڈیسک) معروف صحافی حامد میر کا اپنے کالم ” باؤ جی سے ملاقات ” میں کہنا ہے کہ۔ 25جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد بہت بری خبریں شریف خاندان کا مقدر بنیں اور ان میں سب سے بری خبر بیگم کلثوم نواز کی رحلت تھی۔ لیکن وہ جاتے جاتے بھی اپنے خاندان اور اپنی جماعت کو بہت کچھ دے گئیں۔ بیگم کلثوم نواز کے جنازے نے مسلم لیگ(ن)
کو ایک نئی زندگی بخشی ہے۔جنازے سے اگلے روز مجھے جاتی امرامیں نواز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ا ور فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ اس رہائش گاہ میں پہلے بھی ان کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات ہوچکی ہے لیکن پہلے یہاں قہقہے، مسکراہٹیں اور رنگ و خوشبو تھی آج ماحول سوگوار تھا۔ ڈرائنگ روم میں نواز شریف کیساتھ خواجہ محمد آصف، پرویز رشید،، عرفان صدیقی اور کچھ قریبی رشتہ دار موجود تھے۔نواز شریف کی آنکھوں میں غم اور اداسی کے سائے نظر آرہے تھے لیکن انکے چہرے پر حوصلہ اور لہجہ پرعزم تھا۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ میں نے فاتحہ خوانی کے بعد ان کی طبیعت کے متعلق پوچھا تو نواز شریف نے بتایا کہ وفات سے ایک دن قبل کلثوم سے فون پر بات ہوئی تھی۔ اس رات میں سو نہ سکا۔ اگلے دن پتہ چلا کہ ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔پھر ان کی وفات کی خبر آگئی اور وہ رات بھی نہ سوسکا۔ نواز شریف نے بتایا کہ تقریباً اڑتالیس گھنٹے کی بے خوابی کے باعث اور پھر اہلیہ کے انتقال کی خبر سے طبیعت بوجھل ہوگئی لیکن اب وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے واقعی انہیں صبر اور حوصلہ عطا کردیا تھا۔ کلثوم کے بائوجی ہمارے
ساتھ اپنی اہلیہ کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ اتنی خوبصورت باتیں وہی کرسکتا ہے جس کا حوصلہ قائم ہو۔ نواز شریف کہہ رہے تھے کہ نجانے یہ کیا راز ہے کہ کلثوم موت کے منہ سے واپس آئیں، انہوں نے آنکھیں کھول دیں، بات چیت شروع کردی، کھانا پینا بھی شروع کردیا اور پھر اچانک ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔