پورے ملک کو ہلا کر رکھ دینے والے فیض آباد دھرنے سے پہلے خادم حسین رضوی کو چند لوگ ہی جانتے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی سیاسی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ رجسٹرڈ کروا اور حالیہ ضمنی انتخابات میں حیران کن ووٹ لے کر سیاسی حلقوں اور صحافی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ تاہم عوام کے لیے وہ اجنبی ہی رہے لیکن فیض آباد دھرنے کے باعث آج وہیل چیئر پر بیٹھے اس شخص کی شہرت نہ صرف پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر پہنچ چکی ہے مگر اب بھی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ خادم حسین رضوی دراصل کون ہیں، کہاں سے آئے اور اس سے پہلے کیا کرتے تھے؟
آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ 4جنوری 2011ءکو ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ اگرچہ عوام کی اکثریت نے اس قتل کی مذمت کی تھی تاہم خادم حسین رضوی اور کچھ دیگر ایسے لوگوں نے اس قتل کو یہ توجیح پیش کرکے جائز قرار دیا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہا تھا۔انگریزی اخبار ڈیلی ڈان کے مطابق اس وقت خادم حسین رضوی حکومت پنجاب کے محکمہ اوقاف میں ملازمت کر رہے تھے اور لاہور میں داتا دربار کے قریب واقع پیر مکی مسجد میں نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے جب ممتاز قادری کی حمایت میں بولنا شروع کیا تو حکومت کی طرف سے انہیں خاموش رہنے کے لیے کئی نوٹس جاری کیے گئے لیکن وہ اپنا نقطہ نظر بیان کرتے رہے جس پر حکومت نے انہیں نوکری سے نکال دیا۔ خادم حسین رضوی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت پنجاب کی طرف سے انہیں بھاری رقم اور بڑے بیٹے کو نوکری دینے کی پیشکش بھی کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی تھی۔اس نوکری سے فراغت کے بعد خادم حسین رضوی کو آزادی اور وقت دونوں میسر آ گئے اور انہوں نے کھل کر عوام کو پاکستانی قانون مجریہ کے سیکشن 295سی کی حمایت میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ وہ ملک کے طول و عرض میں گئے اور لوگوں میں اپنے نظرئیے کو پھیلایا اور یوں ایک جماعت کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔