لیڈر شپ چند بڑی خوبیوں کا مجموعہ ہوتی ہے‘ یہ خوبیاں اگر کسی میں ہوں تو وہ شخص لیڈر بن جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی کمزور یا غریب کیوں نہ ہو اور اگر کسی شخص میں یہ خوبیاں نہ ہوں تو وہ خواہ وہ کتنا ہی بڑا‘ مضبوط‘
امیر اور طاقتور کیوں نہ ہو وہ لیڈر نہیں کہلا سکتا۔ لیڈر شپ کی ان خوبیوں میں دو خوبیاں بے خوفی اور سیلف لیس نیس یعنی لالچ نہ کرنا بھی شامل ہیں۔ہمارے قائداعظم محمد علی جناح میں لیڈر شپ کی دوسری خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ خوبیاں بھی موجود تھیں۔ قائداعظم دوسروں سے خائف نہیں ہوتے تھے۔ وہ ایک خاص حد سے زیادہ کسی سے متاثر بھی نہیں ہوتے تھے مثلاً آپ ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے‘ ستمبر1944ءمیں دہلی میں مہاتما گاندھی اور قائداعظم کے درمیان سیاسی نوعیت کی ایک اہم میٹنگ ہوئی‘
اس میٹنگ میں برصغیر کا آنے والا نقشہ طے ہونا تھا۔ گاندھی جی اس میٹنگ کیلئے قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر تشریف لائے‘ میٹنگ کا وقت طے ہو گیالیکن گاندھی جی مقررہ وقت سے دس منٹ پہلے قائداعظم کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے‘ گاندھی جی جونہی قائداعظم کے گھر میں تشریف لائے‘ قائداعظم کے سیکرٹری بھاگتے ہوئے قائداعظم کے پاس پہنچے اور آپ سے عرض کیا ”گاندھی جی آ گئے ہیں“ قائداعظم اس وقت فارغ بیٹھے تھے‘ آپ نے گھڑی دیکھی اور سیکرٹری سے کہا ”میرا خیال ہے یہ دس منٹ پہلے آ گئے ہیں“
سیکرٹری نے ہاں میں سر ہلایا‘ قائداعظم نے میز پر پڑی کتاب اٹھائی‘ کھولی اور سیکرٹری سے کہا انہیں دس منٹ تک انتظار کرنے دو‘ میں ان سے مقررہ وقت سے پہلے نہیں ملوں گا“ سیکرٹری حیران رہ گیا کیونکہ گاندھی ایک بڑی شخصیت تھی اور اسے یوں دس منٹ تک برآمدے میں کھڑا کر دینا ایک مشکل کام تھا چنانچہ سیکرٹری پریشان ہو گیا۔قائداعظم نے اس سے کہا ”میں ہندوﺅں کے لیڈر کو قطعاً امپریشن نہیں دینا چاہتا کہ مسلمانوں کے لیڈر کے پاس اس قدر فالتو وقت ہے کہ وہ گاندھی کو دس منٹ پہلے مل سکتا ہے لہٰذا اسے ویٹ کرنے دو“۔
قائداعظم نے اتنا کہا اور اس کے بعد کتاب پڑھنا شروع کر دی۔ مالی دیانت کے معاملے میں بھی قائداعظم سیلف لیس تھے۔ گورنر جنرل بننے کے بعد وہ تمام ذاتی اخرجات اپنی جیب سے کرتے تھے اور انتقال تک ان کا کوئی فارن اکاﺅنٹ تھا‘نہ ہی زرعی زمین تھی اور نہ ہی ان کے کسی عزیز رشتے دار نے تین کروڑروپے کی بلٹ پروف گاڑی خریدی تھی اور جب اس سے اس گاڑی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا تھا ”میں ایسی تین گاڑیاں خرید سکتا ہوں اور نہ ہی انہوں نے زیرو آمدنی کے باوجود اپنی بیگم صاحبہ کے نام نکلنے والے ساڑھے چار کروڑ روپے زرعی ترقیاتی بینک میںجمع کرائے تھے اور نہ ہی لندن اور جدہ میں ان کا کوئی کاروبار‘ کوئی فلیٹ اور کوئی سرے محل تھا۔
ان کی جتنی جائیداد تھی انہوں نے انتقال سے قبل وہ اسلامیہ کالج پشاور‘ علی گڑھ یونیورسٹی اور سندھ مدرسة الاسلام کے نام وقف کر دی تھی اور یہ ہوتی ہے لیڈر شپ لیکن بدقسمتی سے ہم آج ایسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں جن کی نظر میں سیاست ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت رکھتی ہے جواسے فیکٹری‘ کمپنی اور سٹاک ایکس چینج کی طرح چلا رہے ہیں اور ساتھ ہی حیران ہو رہے ہیں کہ لوگ ان کی عزت کیوں نہیں کرتے۔ خدا کے بندو عزت کیلئے تو اصول چاہئیں‘ اس کیلئے توانسان کو پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتے ہیں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ فرعون کی کرسی پر بیٹھے ہوں اور حضرت موسیٰ علیہ کی طرح لوگ آپ کے ہاتھ بھی چوم رہے ہوں‘ عزت کیلئے آپ کو بھوکے پیٹ فرعون کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے تب جا کر اللہ تعالیٰ آپ پر کرم کرتا ہے۔
..