آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی بہن کو فیس بک پر دوستی کی درخواست (فرینڈ ریکوئسٹ) بھیجنے والے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
شرمین عبید چنائے نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس معاملے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان میں کوئی حد نہیں، گزشتہ رات میری بہن آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی ایمرجنسی میں گئی اور جس ڈاکٹر نے اس کا علاج کیا بعد میں اسے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی۔” انہوں نے ڈاکٹر کیخلاف شکایت کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
چار بچوں کے باپ ڈاکٹر کو نوکری سے نکالے جانے پر سوشل میڈیا صارفین غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کر رہے ہیں کہ کسی ڈاکٹر کا اپنے مریض کا ریکارڈ چیک کر کے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا یا اس کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کرنا غیر اخلاقی حرکت ضرور ہے مگر یہ کسی طور پر بھی ہراساں کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔
صارفین نے شرمین عبید چنائے کو ہی غلط قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے کو کسی اور طرح بھی نمٹایا جا سکتا تھا۔ یہ مسئلہ ہرگز اس نوعیت کا نہیں تھا جس طرح اسے منظرعام پر لایا گیا اور اس کے باعث ایک ڈاکٹر اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اس سارے معاملے کے بعد مذکورہ ڈاکٹر کیساتھ کام کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر کا پیغام بھی سوشل میڈیا پر آ گیا جس میں اس نے ناصرف ڈاکٹر کی تعریف کی ہے بلکہ انہیں نوکری سے نکالے جانے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ شخص سے اس معاملے پر آواز بلند کرنے کی گزارش بھی کی ہے۔ خاتون ڈاکٹر کا پیغام بھی ذیل میں دیا گیا ہے۔
ٹوئٹر صارف آمنہ احد نے لکھا ”یہ یقینا بہت غیر اخلاقی حرکت ہے میرا میں نہیں سمجھتی کہ آپ کو اسے ’ہراساں‘ کرنے کے زمرے میں دیکھنا چاہئے۔ یہ صرف ایک فرینڈ ریکوئسٹ تھی“
ماووز سیف نے لکھا ”فرینڈ ریکوئسٹ جنسی ہراسگی نہیں ہے۔۔۔ بھاڑ میں جاﺅ“
سیدہ کاظمی نے لکھا ”خاتون! ہراساں کرنے اور غیر اخلاقی حرکت میں بہت زیادہ فرق ہے اور یہ معاملہ غیر اخلاقی کے زمرے میں آتا ہے“
سبین مظفر نے لکھا ”اگر ایک عورت پریشان کیا جائے تو یہ ہراسگی ہے! اگر کوئی مریض کی فائل سے معلومات لے اور اسے سوشل میڈیا پر ڈھونڈے۔۔۔ یہ پیچھا کرنا ہے“
عثمان رانجھا نے تو کمال ہی کر دیا اور لکھا ”آپ کو تو اس ڈاکٹر کا شکرگزار ہونا چاہئے کیونکہ اس نے آپ کو اگلی ڈاکیومنٹری کیلئے زبردست مواد فراہم کر دیا ہے” وارڈ میں ایک لڑکی“
کائنات نے لکھا ” آپ پاکستان کے ’لتے‘ کیوں لے رہی ہو۔ خدا کا واسطہ ہے، اس ڈاکٹر کو برا بھلا کہو ، پورے ملک کو نہیں“
ثاقب انجم شیخ نے لکھا ”تم پاکستان کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔۔۔ پوری دنیا میں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان دوستی ہوتی ہے۔۔۔ شادی سمیت بہت سے پیشکشیں بھی کی جاتی ہیں“
مذکورہ ڈاکٹر کیساتھ کام کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر بھی اس سارے معاملے کے بعد میدان میں آ گئی اور ناصرف ان کی نیک نامی کی گواہی دی بلکہ اس سارے معاملے پر دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا۔
خاتون ڈاکٹر نے اپنے پیغام میں علی نامی شخص کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ” میں نے شرمین کی بہن کو ڈاکٹر کی طرف سے ’ہراساں‘ کرنے سے متعلق تمہاری پوسٹ پڑھی ہے۔ میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں اسی ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتی ہوں وہ بہت مہربان اور محنتی شخص ہیں۔
میں اس بات سے انکار نہیں کروں گی کہ جو انہوں نے کیا وہ غلط تھا لیکن میں یہ بھی نہیں سمجھتی کہ جس طرح انہیں قصووار ٹھہرایا جا رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی طاقتور جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ وہ ڈاکٹر شرمین عبید چنائے کی طرف سے نام نہاد نسوانی ہراسگی بند کرنے سے متعلق تنقید کا شکار ہو گیا اور اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
جس روز انہیں نوکری سے نکالنے کی خبر سنائی گئی، اسی روز میری ان کیساتھ ملاقات ہوئی، ان کی اداسی میری پریشانی کیلئے کافی تھی کہ کہیں وہ خود کو نقصان نہ پہنچا بیٹھیں۔ 4 بچوں کے باپ کا ہسپتال میں مذاق بننا اور ایک ایسی فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے کی وجہ سے بیروزگار ہونا، جسے باآسانی رد کیا جا سکتا تھا، انصاف نہیں ہے۔
میں آپ کو صرف یہ سمجھانا چاہتی ہوں کہ ہر کوئی انسان ہے۔ ان معروف شخصیات کو یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ جو ٹھیک سمجھیں، وہی کریں۔یہ معاملہ کسی اور طریقے سے حل ہونا چاہئے تھا۔ برائے مہربانی اس پیغام کو پھیلائیں، آپ واحد شخص ہیں جنہوں نے شرمین عبید چنائے کے اقدامات کے خلاف قدم اٹھایا تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ آپ اس معاملے کو بھی حل کر سکتے ہیں۔