اس دن جب گلی میں میں کھڑا تھا تو ایک لڑکا ایک گھر کے باہر بار بار چکر لگا رہا تھا۔میں نے اس سے جا کے پوچھا بھائی کس کی تلاش ہے تو اس نے کہا کسی کی نہیں بس ایک دوست نے ادھر آنے کا وقت دیا
وہ ابھی تلک آیا نہیں خیر میں اس کی بات سن کے گھر چلا گیا اور کچھ لمحوں بعد اچانک سے نکلا تو میں نے دیکھا اسی گھر سے ایک لڑ کی سر جھکائے تیزی سے باہر آئیاور جلدی سے اس لڑکے کو ایک لفافہ دے کیرگھر بھاگ گئی۔۔لڑکا وہ لفافہ لے کر بہت ہی مسکریا اور اسے دل سے لگاتا ہوا وہاں سے چل دیا میں اپنی بری عادت کے مطابق تحقیق کرنے کے لیے اس کے پیچھے چل دیا وہ لڑکا ایک درخت کے نیچے جا کر رکا اور اس نے اسلفافہ کو کھولا
جس کے اندر سے ایک صفحہ نکلا اس نے اس صفحہ کو کوئی تین سے چار بار چوما اور اپنی آنکھوں سےلگایا اور پڑھنے لگا میں دور سے اس کے چہرے کو اور حرکات کو دیکھ رہا تھا اور اپنی قیاس آرائیوں میں مصروف تھا اچانک سے دیکھا لڑکے نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور بے ہوش ہو کے گر پڑا۔میں بھاگتے ہوئے اس کے قریب گیا اور اس کے ہاتھ سے وہ ورق لے کر تجسس سے پڑھنے لگا۔۔یہ ایک خط تھا جو اس لڑکی نے اپنے اس عاشق کو لکھا۔۔خطالسلام علیکم!اے وہ نوجوان جس نے ابھی اپنی ماں کی گود سے باہر قدم رکھا ہے اور اس کی تربیت کرنے پر تھوک ڈالا ہے میں مانتی ہوں تیری سوچ کے مطابق جس محبت کا تو دعویدار ہے وہ سچی اور پکی ہے
اور تو اس کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفا بھی کرے گا کیونکہ اس محبت کا آغاز نظر کے ملنے سے ہوا تھااور انجام جسم کے ملنے پر ہو گا کیونکہ میری ماں نے اپنے بیٹے عبدالرسول کوایک دن کہا تھا بیٹا یہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک ہے اور جب یہ تیر چلتا ہے نا اس کی طاقت کبھی کبھی پورے پورے خاندان برباد کر دیتی ہے اور پھر جب اس کا بدلا مڑتا ہے تو لفظ عزت بھی سر جھکا کر انسانوں کی بستی سے نکل جاتا ہے لہذا اس آنکھ کو صرف اپنے سوہنے نبی کے چہرے کو دیکھنے کے لیے منتظر رکھناورنہ قیامت کے دن اپنے ماں کو نانا حضور کی بارگاہ میں شرمندہ نہ کرنا
کہ میں اس بات پر شرم کے مرے ڈوب مروں کے میں نے تیری تربیت میں کمی چھوڑ دی تھی۔۔تو سن اے خود کو خوبصورت شہزادہ اور مجھے دنیا کی حور سمجھنے والے میں ایک سید زادی ہوں اور میرا تعلق اماں فاطمہ کے قبیلہ سے ہے جو قیامت کو تمام جنتی عورتوں کی سردار ہوں گیمیں نے اپنے لیے دعا مانگی ہے کہ اے اللہ مجھے جنت میں ان کی خادم بنانا توتو خود فیصلہ کر اگر میں تیری محبت میں مبتلا ہو جاؤں تو خادمیت تو کیا مجھے جنت کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔۔رہا سوال تو نے جو مجھے کل شام باغ کے اس پیڑ کے نیچے ملنے کو بلایا ہے
میں وہاں بھی آجاتی لیکن میں تم سے ایک وعدہ لوں کہ تو اپنی بہن گڈی کو بھی ساتھ لے کر آنا اور میں اپنے بھائی کو۔۔کیونکہ تیری نظر میں دنیا کیسب سے شریف عورت تیری گڈی بہن ہے اور میرے بھائی کی نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت میں ہوں اسطرح دونوں مردوں کی غلط فہمی دور ہو جائے گی اور اس کے بعد جب گاؤں میں یہ خبر پھیلے گی تو کوئی بھائی اپنی بہن کو شریف نہیں سمجھے گا اس طرح آئندہ محبت کرنے والوں پر ہمارا احسان رہے گا کہ یا تو وہ اس گنا سے ہماری وجہ سے دور رہیں گے
یا انہیں ہر طرح کی آسانیا ں ہو جائیں گی رات کے تیسرے پہر کوئی بھائی اپنی بہن کو کسی باغ کے پیڑ کے نیچے ملنے سے نہیں روکے گاپھر جب یہ گنا اتنا عام ہو جائے گا تو لفظ غیرت کی تعریف بھی سب کو سمجھ آ جائے گی کہ اپنی بہن کی طرف کسی کی نگاہ نہ اٹھنے دینا غیرت نہں بلکہ اپنی نظروں کو کسی کی بہن کی طرف بڑھنے سے روکنے کا نام غیرت ہے۔۔اور اگر تو اس فلم یا ڈارامے کی بات کرتا ہے جس کو دیکھ کر تو نے مجھے خط لکھا تو ٹھیک ہے میں اسی طرح اسی لباس میں تجھے ملنے چلی آتی ہوں
مگر تیری آنکھوں اور دل کی ہوس نے جب میرا بدن نوچا تو تو ناراض نہ ہونا کہ اس طرح کا ظاہری حسن و لطف سے لبریز موقع دنیا کا ہر مرد چاہتا ہے تو میری بات کو سمجھ تو رہا ہے نا کہ میرا بھائی خدا گوا ہ ہے وہ کردار کا بہت پکا ہےاس کا بھی تو حق بنتا ہے کہ وہ عیش کے کچھ لمحے گزارے وہ بھی تو جانے عشق کا لطف کیا ہے کسی کو ایک انگلش جملہ بول کر اس سے ایسی امیدیں وابستہ کرنا جس سے عورت بھی خود پر شرما جائے اور مرد کو جنم دینے والی عورت اپنی کوکھ پر لعنت بیجھے کہ عورت نے
انبیاء4 کو جنم دیا اور ان کی تربیت کر کے زمانے کی دکھی انسانیت کو ظلم و ستم سے نکالا اور میں نے ایک اسے آدمی کو جنم دیا جو انسانیت ہی سے خالی ہے۔۔۔۔اے میرے خوبرو عاشق تو جو محبت کر رہا ہےاس میں ہوس کی بو کے سوا کچھ نہیں کیا تیری ماں نے تجھے وہ قرآن نہیں پڑھایا جس میں مومن کی حیا کا ذکر ہر کیا تو مرد مومن اور حضور . کا وہ امتی نہیں جس نے ایمان کے درجوں میں سے ایک درجہ حیا کا پایا ہو۔۔۔میری باتیں پڑھ کر تجھے غصہ آیا ہو گا کہ میں نے تیری بہن کا ذکر کیوں کیا لیکن ایمان کی بات ہےہر با حیا بھائی کی یہ کیفیت ہی ہوتی ہے مگر ایسا ہونا کہ اپنی بہن کے علاوہ کسی بھی عورت کو شریف نہ سمجھنا یہ گندی سوچ اور تربیت کا نتیجہ ہے۔۔تو حضرت علی .
کا بہت ہی ماننے والا ہے جیسا کے تیرا تذکرہ اس معاشرے میں کیا جاتا ہے مگر کیا تو نے مولا کائنات کا یہ فرمان نہیں پڑھا’’اپنی سوچ کو پانی کے قطروں کی طرح صاف رکھو کیونکہ جس طرض پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہےاسی طرح سوچ سے ایمان بنتا ہے‘‘۔۔۔کیا تیرے پاس جو ایمان ہے وہ دیکھلاوے کا ہے حضرت علی . کا سچا پیارا تیرے دل میں نہیں۔۔۔اور جیسا کرو گے ویسا بھرو گے والا قول بھی تو کسی عاقل کا ہے اس کا مطلب ہے تو اس کام کے انجام کے لیے تیار ہے اپنی ماں بہن کی ایسی عزت کا ہونا
تیرے لیے عجیب نہیںہو گا۔۔۔۔میں تجھے تبلیغ نہیں کر رہی بس اتنا بتا رہی ہوں کہتیری بہن گڈی جو کہ میری دوست ہے اس کو بھی ایک تجھ جیسے بے ایمان اور راہ بھٹکے نوجوان نے خط لکھا اور اسی پیڑ کے نیچے بلایا لیکن عین اسی وقت جب کے میں تجھے خط دے رہی ہوں تیری بہن نے بھی اسے خط دیا اور اسے اس کی محبت کا جواب دیا کہ وہ اس سے محبت کرے گی انہی باتوں اور شرائط کے ساتھ جو میں تجھے لکھ رہی ہوںاگر تجھے یہ سب میری باتیں منظور ہیں تو جا اور جا کہ گڈی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دے
جو تو مجھ سے چاہتا ہے کیوں کہ اس لڑکے کو بھی میں نے یہ ہی الفاظ گڈی سے لکھوا کے دئیے اور اگر میں ایسا نہ کرتی تو وہ لڑکا بھی راہ راست پر نہ آتا اور تیری بہن بھی گمراہ ہو چکی ہوتی۔۔اب آخری دو باتیں جن کا تو اپنے اللہ سے وعدہ کرنا۔۔۔تونے مجھ پر بری نظر ڈالی تو تیرے لیے اللہ نے یہ مکافات عمل والا سبق پیدا کیا۔۔اور میں نے تیری بہن کو بری راہ سے بچایا اس لیے میں بھی اللہ کی عطاکردہ ہمت سے تیرے گمراہی اور اللہ کی ناراضگی والے جال سے بچ گئی ہوں۔۔اب اگر میرا تیری بہن پر احسان ہے تو پھر اس کو بھول کر اپنی گناہ کی ضد پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اس دفعہ یاد رکھنا اللہ نے تجھے چار بہنیں اور ایک ماں دی ہے۔۔۔۔میں بھی اللہ سے دعا کروں گی کہ اللہ تجھے اور تیرے گھر والوں کو گمراہی اور ایسے گنا ہ سے بچائے
اور تو بھی اللہ سے توبہ کر کہ حضرت علی . جن سے تیری محبت مشہور ہے ان سے سچی اور دیکھلاوے سے پاک محبت کرنے لگ جا اور ان جیسی عظیم اور پاک ہستی کی محبت میں کسی عورت کو نہ لا ایسا نہ ہو جس حوا نے آدم کو جنت سے نکلوایا ہے وہ تجھے اس دنیا میں کہیں کا نہ چھوڑے اور تیری وہ پگڑی جس پر تجھے مان ہےوہ خاک کا حصہ بن جائے اور تیرے گھر میں عورت کا جنم لینا گناہ سمجھا جانے لگے۔۔میں چاہتی تو اپنے حقیقی غیرت مند بھائی کو بتا دیتی مگر میں نے تجھے تیری بہن کی خاطر معاف کیا
کیونکہ تیرے لیے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے سمجھنا مشکل نہیں رہا۔۔۔اپنی بہن کو اس لڑکے کا مت پوچھنا ایسا نہ ہو کہ میرا بھائی بھی مجھ سے ایسی ضد کرے اس وقت سب سے اچھاحل اللہ کی باگاہ میں سچی معافی ہےمیں اتجھے اللہ کے نام پر معاف کرتی ہوں اللہ سے بھی اس کی ایک سی زادی بندی کے متعلق غلط سوچ رکھنے کی معافی مانگ لینا۔۔۔یہ میرا پہلا پیار کا خط ہے جس میں میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں اللہ سے اس کے حبیب سے پیار کرتی ہوں اگر جس چیز کی تو دعوت دیتا ہے یہ میرے نبی پاک ﷺ کی سیرت میں ہوتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ایسا عمل اور اس کی مثال اماں فاطمہ کی زندگی میں ملتی تو میں اس پر عمل کرتیاور اگر ان کی زندگی میں نہیں اورمیری اور تیری والدہ کی زندگی میں ایسی ایک نہیں ہزار مثالیں بھی ہوتی تو بھی تو مجھے ہرگز اس دعوت کا قبول کرنے والا نہ پاتا۔۔اللہ تیری بہنوں اور میری عزت کی حفاظت فرمائے۔۔میں اللہ سے پیار کرتی ہوں۔۔میں اللہ سے پیار کرتی ہوں۔۔میں اللہ سے پیار کرتی ہوں، والسلام۔۔۔۔