ماں بننا ہر شادی شدہ عورت کی اولین ترجیع ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہیں جس کے باعث ایک عورت کو حمل ضائع کرنے کے بارے میں یا حاملہ نہ ہونے کے بارے میں سوچنا پڑ جاتا ہے ۔مذہب اسلام میں ایک عورت شادی کے بعد صرف اس ہی صورت میں حمل ضائع کر سکتی ہے جب اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو ۔ وگرنہ غیر ضروری باتوں کو بنیاد بنا کر حمل ضائع کرنے کی اجازت ہمارے مذہب میں نہیں ہے۔
ایک عور ت کو حمل روکنے یا منصوبہ بندی کے بارے میں چند باتوں کا جاننا ضروری ہے :
۱۔منصوبہ بندی کرنے سے پہلے میاں بیوی کو آپس میں مشورہ کر لینا چاہئے
چونکہ آج کل غیر معیاری اور غیر صحت بخش غذا کھانے کی وجہ سے ہر دوسری عورت اینیمیا اور ہیپا ٹائٹس کا شکارنظر آتی ہے اس لئے ڈاکٹر یہ ہی مشورہ دیتے ہیں پہلے بچے کے بعد دو سال کا وقفہ ضرور کرنا چاہئے اس وقفہ کے لئے بیوی کو شوہر کے تعائون کی ضرورت ہوتی ہے لہذا اپنے خاوند سے مشورہ کر کے خاندانی منصوبہ بندی کے مرکز جا کر کائونسلنگ لینی چاہئے
۲۔ حمل ضائع کرنے سے حمل کی تصدیق ضروری ہے
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم بستری سے پہلے شوہر حفاظتی شیلڈ کا استعمال کرنا بھول جاتا ہے یا غیر معیاری حفاظتی شیلڈ کے استعمال کے باعث بھی عورت کو حمل ٹھہر جاتاہے ایسی صورت میں ماہواری کی تاریخ آنے کا انتظار کرنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ حمل ٹھہرا یا نہیں ۔ آج کل بازار میں ایسی ٹیسٹ اسٹرپ بھی دستیاب ہیں جو ماہواری کی تاریخ کے دوسرے دن ہی حمل ٹھہرنے کی تصدیق کر دیتی ہیں ۔
۳۔ حمل ضائع کرنے کے طریقے
بہت سے ممالک میں حمل ضائع کرنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے ۔ایشیا کے ممالک خاص طور پر پاکستان میں حمل ضائع کرنا غیر اخلاقی اور غیر شرعی فعل تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا بہت سے ڈاکٹرز حمل ضائع نہیں کرتے اور جن ہسپتالوں میں حمل ضائع کئے جاتے ہیں وہاں حمل کے تیرہ ہفتوں میں میں ہی حمل ضائع کر دیا جاتا ہے۔تیرہ ہفتوں کے بعد حمل ضائع کرنے سے ماں کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔لہذا حمل کو جانچ کرنے کے فوری بعد ہی گائنی کلینک جانا بہتر فیصلہ ہوتا ہے ۔
۴۔ ابورشن سے متعلق غلط تصورات دور کریں
۱۔لیگل ابورشن اور مستند ڈاکٹر سے کروایا جانے والا ابورشن حاملہ کی صحت کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتا البتہ گھر یلو دائی یا غیر تجربہ کار نرس سے کروایا جانے والا ابرشن کئی قسم کے انفیکشن ،بانجھ پن اور دیگر بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے
۲۔ابورشن کے بعد ایک عورت دوبارہ آسانی سے ماں بن سکتی ہے لہذا یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ابورشن کے بعد بانجھ پن کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۳۔ابورشن کے بعد اگرچہ ایک عورت کو کسی مسئلہ کا سامنانہیں کرنا پڑتا ۔
۵۔ برتھ کنٹرول پلز کیسے کام کرتی ہیں
برتھ کنٹرول پلز انڈوں کو بیضہ دانیوں تک پہنچنے نہیں دیتیں جن سے انڈے فرٹیلائز نہیں ہوتے اور عورت کو حمل نہیں ٹھہرتا ۔عام طور پر برتھ کنٹرول پلز مہینے میں ۲۲ دن استعمال کرنی ہوتی ہیں جن کے استعمال میں باقاعدگی اور اور ایک مقررہ وقت ہونا ضروری ہوتا ہے برتھ کنٹرول پلز ہر دن کے لئے الگ ہوتی ہیں ۔اس لئے دوا کے پیکٹ میں ہر دن استعمال کرنے والی ٹیبلیٹ کا اشارہ درج ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ ایک گولی کا ناغہ بھی حمل کو نہیں روک پاتا ۔
۶۔ برتھ کنٹرول پلز کے ساتھ چند احتیاطیں ضروری ہیں
کچھ خواتین برتھ کنٹرول پلز میں موجود ہارمون ایسٹروجن بھی پیدا کرتا ہے جس کے باعث ان کو قے ،الٹی ،سر چکرانا یا ذہنی دبائو محسوس ہوتا ہے لہذا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ان دوائوں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔جو خواتین شوگر ،فالج ،مرگی اور دل کے امراض میں مبتلا ہوں ان کے لئے یہ دوائیں مضر بھی ثابت ہو سکتی ہیں ۔برتھ کنٹرول پلز کے ساتھ دیگر دوائوں ( اینٹی بایوٹک ایکنی اور الرجی )کی دوائیں استعمال کرنے سے پہلے گائنی کولوجسٹ کو بتانا ضروری ہوتا ہے ۔
۷۔ برتھ کنٹرول پلز کے اثرات
مانع حمل کی گولیوں کو منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں منفی اثرات میں الٹی ،متلی ،سر درد اور مثبت اثرات میں بانجھ پن دور ہونا ،بیضہ دانیوں میں انڈے بننا اور جلدی مسائل دور ہوتے ہیں عام طور پر برتھ کنٹرول پلز استعمال کرنے سے مہینہ میں ہی اس کے مضر اثرات محسوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں اوع دوبارہ استعمال کرنے سے الٹی ،سر درد جیسی شکایات نہیں ہوتیں ان دوائوں کے استعمال کا ترک ڈاکٹر کے مشورے سے کرنا چاہئے وگرنہ حمل ٹھہرنے کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
۸۔ برتھ کنٹرول لوشن
برتھ کنٹرول دوائوں کے علاوہ مختلف کریمیں اور لوشن بھی استعمال کئے جاتے ہیں جن سے حمل نہیں ٹھہرتا ۔ اس کے علاوہ بیرونی استعمال کی ادویات بھی اس مقصد کے لئے استعمال ہوتی ہیں ۔
۹۔سر جری
بعض حضرات اپنی مرضی سے نس بندی کرا لیتے ہیں ایسا تب کیا جاتا ہے جب مستقل طور پر اولاد کی خواہش نہ ہو ۔اس کے لئے چھوٹا سا آپریشن کیا جاتا ہے جس میں مرد کی نس بندی کر دی جاتی ہے اور اسپرم باہر خارج نہیں ہوتے ۔ عورتوں کی سر جری میں فیلوپیان ٹیوب لاک کر دی جاتی ہیں اور وہ مستقل طور پر اسپرم حاصل نہیں کر پاتیں اس طرح حمل ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں ۔