قندیل بلوچ اور عبدالستار ایدھی میں ملاقات برسوں پہلے اس وقت ہوئی تھی جب وہ صرف بارہ یا تیرہ سال کی تھی ۔ روزنامہ ڈان کے مطابق قندیل بلوچ کی بہن بتاتی ہیں کہ “ہماری ماں چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں پڑھیں۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان کی کوئی لڑکی کبھی اسکول نہیں گئی تھی۔ لوگ میرے والد سے (تمسخرانہ انداز میں) کہتے تھےکہ “ارے اب تمہاری لڑکیاں اسکول جائیں گی.” پھر میرے والد کے رشتہ دار بھی انہیں ہمیں اسکول بھیجنے سے روکنے کا کہتے تھے۔ میرے والد کچھ نہیں کہتے تھے مگر میری والدہ نے ہمت دکھائی اور ان سب کے خلاف جا کر اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجا۔ اور ہم گئیں۔قندیل گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی. ایک دن جب وہ اپنے کزنز کے ساتھ کھیل رہی تھی تو اس نے انہیں بتایا “کل میں اپنی نانی کے گھر جا رہی ہوں، وہاں سے میں اپنی گڑیوں کے لیے خوبصورت کپڑے لاؤں گی اور وہ تمہاری گڑیوں کے کپڑوں سے بھی زیادہ پیارے ہوں گے۔
ہماری نانی ماں درزن تھیں.اگلے دن وہ اسکول کے بعد سیدھا بس اسٹیشن گئی اور وہاں سے ایک ویگن میں بیٹھ گئی. وہ چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی اور قریب بارہ یا تیرہ سال کی تھی.وہ یہ تسلی کیے بغیر ہی ویگن میں بیٹھ گئی کہ وہ ویگن ملتان جا رہی تھی یا ڈی جی خان۔ وہ ویگن میں بیٹھ گئی اور ویگن چلتی رہی۔ شاید ڈی جی خان بھی گزر گیا، ہمیں معلوم نہیں۔ویگن ملتان رکی اور وہ وہاں اتر گئی. وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کدھر ہے. وہ اتنی چھوٹی تھی کہ وہ رونا شروع ہو گئی. قریب ہی ایک دکاندار اسے دیکھ رہا تھا. وہ اس کے پاس آیا، اور شفقت سے اس پوچھا “بیٹی! تم کہاں جانا چاہتی ہو؟ تم کہاں سے ہو؟” اس نے اس آدمی کو بتایا کہ وہ شاہ صدر دین سے ہے، اور وہ ڈی جی خان میں اپنی نانی کے گھر جانا چاہتی ہے۔ اس آدمی نے اسے بتایا کہوہ غلطی سے ملتان آ گئی ہے۔ وہ مزید رونے لگی۔ اس آدمی نے اسے ایدھی ہوم میں چھوڑ دیا۔ہم سب بہت پریشان تھے۔ ان دنوں ہمارے پاس موبائل فون بھی نہیں تھا. ان دنوں گھر گھر جا کر کسی کو ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ ہم لوگوں سے پوچھتے اور اسے ڈھونڈتے رہے، 4 سے 5 دن گزر گئے۔ ہمارے گھر اتنے دن کھانا نہیں بنا۔
ہماری ماں رو رو کے بے سدھ ہوگئی. وہ سوچ رہی تھی کہاسے شاید کسی نے اغوا کر لیا ہے اور اسے یرغمال بنا لیا ہے۔ ‘فوزیہ کہاں گم ہو گئی؟ وہ ہر وقت بس یہی کہتی رہتی تھیں۔پھر ایک روز رات میں بہت بارش ہوئی. عبدالستارایدھی، آپ نے ان کا نام سنا ہوگا، ہے نا؟ وہ قندیل کو واپس لے آئے.ہم سب آگ کے گرد ایک دائرے کی شکل میں پریشان بیٹھے تھے جب وہ آئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس (فوزیہ) سے پوچھا کہ وہ گھر کیسے واپس جائے گی۔اس نے جواب دیا کہ مجھے میرے گاؤں لے جائیں اور وہاں سے وہ اپنے گھر کا راستہ بتا دے گی. وہ ایک ویگن پر شاہ صدر دین اسٹاپ تک آئے اور وہاں اتر گئے۔ اس نے عبدالستار ایدھی کو بتایا “اب جبکہ آپ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں، میں آپ کو اپنے گھر تک لے جاؤں گی.”اس نے گھر کے باہر سے ہمیں آواز دی۔میرے والد باہر گئے۔ وہ فوزیہ اور عبدالستار ایدھی کے ساتھ واپس لوٹے.بہت ٹھنڈ تھی. میرے والد اور ہم سب بہت خوش تھے. ہمیں حیرت تھی کہ وہ ان تک کیسے پہنچ گئی. پھر انہوں نے ہمیں بتایا۔ہم نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں تھی؟ اس نے بتایا کہ وہ نانی گھر جا رہی تھی تاکہ اپنی گڑیوں کے لیے کپڑے لا سکے، لیکن اسے نہیں معلوم کہ وہ کیسے گم ہو گئی۔میرے والد نے اخبار میں اشتہار بھی دیا تھا۔ ایدھی صاحب نے وہ اشتہار دیکھا تھا جس میں ہماراپتہ اور قندیل کی تصویر بھی تھی۔اس رات ایدھی صاحب ہمارے پاس ٹھہرے، ہمارے گھاس پھوس سے بنے کمرے میں۔ ہم نے انہیں افطاری کروائی، ان کے لیے چائے اور ابلے انڈے بنائے۔ ٹھنڈ تھی اور ان کے کپڑے گیلے تھے لہذا ہم نے انہیں ہمارے والد کے کپڑے دیے۔ انہوں نے وہ پہن لیے. صبح ہمارے والد انہیں ویگن اسٹاپ تک چھوڑ کر آئے.وہ پہلی دفعہ تھی جب فوزیہ ویگن میں سوار ہوئی تھی، اور اس کے بعد اسے کبھی اسکول جانے کی اجازت نہ ملی.”