میری زندگی کی ایسی کہانی جو آج اس معاشرے میں عام ہوتی جا رہی سُنانا چاہتی ہوں ایک ایسی داستان جو روز میری روح کو گھائل کرتی ہے اولاد کی خوشی سے محروم ہونے کے باوجود میں ایک خوبصور ت ازواجی زندگی گزار رہی تھی ۔۔۔۔صائم میرے شوہر میرا مان تھے ۔۔۔۔میری زندگی تھے۔
اولاد نہ ہونے کا طعنہ مجھے صارم نے کبھی نہیں دیا تھا ۔باجی !مجھے فاریہ کے گھر جانا ہے صائم بھائی چھوڑ دیں گے نا !!!میری چھوٹی بہن سعدیہ نے مجھ سے پوچھاکیوں نہیں چھوڑیں گے بھئی آخر جیجا جی ہیں تمہارے ،کیوں صارم ؟ میں درست کہہ رہی ہوں نا ؟میری کیا مجال کے ہوم منسٹر کے کسی حکم کی خلاف ورزی کروں ۔صارم نے شوخ ہوتے ہوئے کہا مجھے صارم پر بہت پیار آیا ، صارم واقعی آپ بہت اچھے شوہر ہیں ۔ملکہ عالیہ کے ان تعریفی کلمات نے غلام کے خون کو سو ا سیر بڑھا دیا ۔۔۔اب چلیں اگر ملکہ و غلام کے درمیان گفتگو مکمل ہو چکی ہو تو ؟ سعدیہ نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا جی جی ۔۔اچھا سعدیہ واپسی صارم کے ساتھ ہو گی یا پھر آٹو کرکے واپس آؤ گی ؟باجی ! یہ جیجا جی کس لیے ہیں ؟ سعدیہ نےبھی شوخی کے ساتھ کہا جی ،جیجا جی بوقت ضرورت ،ڈرائیور ، خانساماں ، مالی ،باڈی گارڈ بس یوں سمجھو جیجا جی نہیں ہیں ایک ایسا اینیمیشن کریکٹر ہے جسے آپ جب چاہیں اپنے من پسند کردار میں ڈھال لیں ۔صارم نے ہاتھ باندھ کر بھول پن کے ساتھ آنکھیں نیچی کرتے ہوئے کہا ۔اچھا صارم سعدیہ کو اپنے ساتھ ہی واپس لے آئیے گا اور ہاں سعدیہ کوشش کرنا جلدی فارغ ہو جاؤ جی باجی !
سعدیہ نے سعادت مندی سے کہا سعدیہ اس سے پہلے بھی میرے شوہر کے ساتھ جاتی رہی تھی مجھ سے امی نے ایک دو دفعہ کہا بھی سعدیہ کو صارم کے ساتھ مت بھیجا کرو یہ مناسب نہیں ہے مگر میں نے امی کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ امی صارم بہت مضبوط کردار کے مالک ہیں اور ہماری سعدیہ بھی ماشاء اللہ سمجھدار ہے ۔کوئی اور اگر مجھے کہتا کہ احتیاط کیا کرو تو میں بہت ترش جواب دیتی کہ یہ گندگی تمہاری آنکھوں اور دماغ میں ہے تمہارے گھر کے مرد ایسا ہی کرتے ہوں گے ۔۔۔۔صارم ،سعدیہ کو ایسے ہی چاہتے ہیں جیسے کوئی بھائی اپنی سگی بہن کو چاہتا ہو بلکہ شاید اتنا اعتماد سگے بھائی پر بھی نہیں کیا جا سکتا جتنا میں صارم پر کرتی ہوں اور اگلی بندی اپنا منہ لے کر رہ جاتی ۔دن یونہی گزرتے رہے صارم اور سعدیہ کے شوخ جملوں کو سُن کر میں بھی بہت محظوظ ہوتی تھی اور کبھی کبھی تو ان کے درمیان ریفری کا کردار بھی ادا کرتی ۔۔۔۔۔۔پھر جو کچھ ہوا اس کا نہ میں نے کبھی سوچا تھا نہ کبھی میرے وہم و گمان میں تھا ۔اس دن لائیٹ نہیں تھی صارم اپنا موبائل گھر میں چھوڑ کر باہر گئے ہو ئے تھے میں نے وقت پاس کرنے کے لیے وہ موبائل اٹھا لیا وڈیو گیلری کے بعد گانے سننے کے لیے آڈیو لگائی تو ایک عجیب آڈیو تھی یہ آواز تو سعدیہ کی تھی۔۔۔۔۔سعدیہ کے الفاظ تھے یا بم میں بتانہیں سکتی وہ صارم سے کہہ رہی تھی صارم اب میں آپ کے سوا کسی سے شادی نہیں کر سکتی مجھے آپ سے محبت ہو چکی ہےآگے کی گفتگو بتا رہی تھی کہ بات میرے تصور سے کہیں زیادہ آگے جا چکی ہے سعدیہ پریگنینٹ ہو چکی تھی ۔واٹس اپ پر دیکھا تو ساری چیٹ ڈیلیٹ تھی یہ آڈیو شاید موبائل کی گیلری میں ڈیلیٹ کرنا صارم بھول گیا تھا ۔میں گُم صُم تھی مجھ سے کہاں غلطی ہوئی ۔۔۔۔
ان دونوں نے میرے اعتماد کو کیسے ٹھیس پہنچائی صارم جب گھر میں داخل ہوا تو میں نے یہ آڈیو اس کے سامنے رکھ دی ۔۔۔۔صارم نے صاف لفظوں میں مجھ سے کہا اچھا ہوا تمہیں پتا چل گیا میں بھی کوئی مناسب موقع دیکھ کر تمہیں بتانے والاہی تھادیکھو ! میں اور سعدیہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اگر تم اس کی بہن نہ ہوتیں تو میں تم کو کبھی طلاق نہیں دیتا اچھا ہوا یہ بات آج تم پر خود کھل گئی ۔صارم ! کیا تم مجھ کو طلاق دے دو گے ؟ میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ صارم سےپو چھا ہاں ! کیوں کہ دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا ۔میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔۔۔۔۔بیگ اٹھایا امی کے گھر گئی سعدیہ سے کہا : ناگن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے تو کیسی ناگن ہے تو نے اپنی بہن کی خوشیوں کو ہی ڈس لیا تو نے میرے سہاگ پر ہی ڈاکہ ڈال دیا باجی ! جو دل چا ہے کہو یہ آنسو کچھ دن میں خشک ہو جائیں گے میں اور صارم کوشش کریں گے آپ کی کسی اچھی جگہ شادی ہو جائے ۔بکواس بند کرو تم اور صارم دونوں ہی گندے ہو نام مت لینا آئندہ اپنی غلیظ زبان سے میرا۔۔۔۔۔میں نے سعدیہ کے بال پکڑ کا جھٹکا دیا سعدیہ نے بھی میرا لحاظ نہیں کیا اور مجھے دھکا دے کر کمرے سے نکل گئی ۔
سب کچھ تو میرا لٹ چکا تھا اب مجھے تنہا اسی آگ میں جلنا تھا طلاق کے کا غذات مجھ تک پہنچ چکے تھے سعدیہ اور صارم نے با قاعدہ کورٹ میرج کر لی ۔اب میں ایک ایسی آگ میں جل رہی ہو ں جس کے شعلوں کو خود میں نے ہوا دی تھی ۔۔۔۔میں ہی تو کہتی تھی صارم بہت با کردار ہیں ۔۔۔۔سعدیہ بہت نیک ہے ۔۔۔۔۔۔گندگی تو لوگوں کے دماغوں اور آنکھوں میں ہوتی ہے ۔نہیں نہیں ۔۔۔۔یہ تو ہونا ہی تھا میں ہی تو تھی ان شعلوں کی پرورش کرنے والی ۔۔۔۔۔شریعت کی اگر میں نے بات مانی ہوتی اور سالی بہنوئی میں کچھ قیود لگائی ہوتیں تو آج مجھے ان شعلوں میں نہ جلنا پڑتا ۔۔۔۔۔شیطان اور نفس دونوں کو موقع دینا ہی سنگین غلطی ہے ۔آپ سے صرف اتنا کہنا ہے میری اس کہانی کو آپ لکھ دیجیے تاکہ آئندہ اور کوئی نادیہ ان شعلوں میں نہ جلے ۔۔۔۔۔یہ شعلے کہیں کسی پھوپھی اور بھتیجی کوجلاتے ہیں تو کہیں خالہ اور بھانجی کو ۔آپ ان سب کو ان شعلوں میں جلنے سے بچا لیجیے ۔۔۔۔۔بتا دیجیے انہیں یہ شعلے جو انہیں جلاتے ہیں ان کی پرورش بھی یہ خود کرتی ہیں روشن خیالی کی آڑ میں ۔۔۔۔۔ماڈرن ازم کے خمار میں ،اسلام ہی میں نجات ہے اسلام میں ہی سکون و راحت ہے ۔
آئیے نادیہ کی اس سچی کہانی کو دوسروں تک پہنچائیں کیا پتہ کوئی اور نادیہ ان شعلوں میں جلنے سے بچ جائے ۔۔۔۔