یہ سات سالہ روہنگیا بچہ یاسر حسین ہے، جس کی عمر کھیلنے کودنے کی ہے، لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ گزشتہ چھ دن سے اپنی ننھی بہن نوئم فاطمہ کو کمر پر اٹھا کر میانمر سے بنگلا دیش کی جانب ہجرت کر رہا ہے۔اس کی یہ تصویر دریائے تیکناف کے قریب لی گئی جہاں وہ اپنی بہن کو اٹھائے ہوئے کیچڑ میں چلتا بنگلہ دیش کی سرحد کی جانب بڑھ رہا تھا۔ وہ ابھی بھی اپنی سکول یونیفارم میں ملبوس نظر آتا ہے لیکن اس کے پاﺅں میں جوتے نہیں ہیں۔ وہ خود کمسن اور ناتواں ضرور ہے لیکن کمال ہمت سے اپنی ننھی بہن کو اٹھائے ہجرت کررہا ہے۔
یاسر حسین ان پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میں سے ایک ہے جو میانمر سے اپنی جان اور عزت بچا کر بنگلہ دیش کا رُخ کرچکے ہیں۔ کمسن یاسر نے اپنے کندھوں پر لٹکی ننھی بہن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معصومیت سے کہا ”یہ بہت بھاری ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اسے اٹھائے ہوئے سارا سفر طے کرسکوں گا۔“ لیکن اس کے پہاڑ جیسے عزم کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ ایک ہفتے سے بہن کو اپنے ننھے کندھوں پر اٹھا کر چل رہا ہے۔
یاسر کی والدہ فیروزہ بیگم نے بتایا کہ میانمر میں راتھے ڈانگ کے علاقے میں برمی فوج نے حملہ کرکے ان کے گھر کو تباہ کردیا۔ جب وہ فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے تو ان کے شوہر کو گولی ماردی گئی۔ فیروزہ بیگم اپنے تین بچوں کو لے کر بمشکل جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ اپنے ننھے بچوں کو لے کر چھ دن تک مسلسل چلتی رہیں یہاں تک کہ وہ دریائے ناف کے کنارے تک پہنچ گئے۔
دوسری جماعت کے طالبعلم یاسر نے بتایا کہ جب وہ گھر سے نکلا تو اس نے سیاہ جوتے اور جرابیں پہن رکھی تھیں، لیکن اس کے جوتے راستے میں ہی کہیں کھوگئے۔ وہ کئی دن تک اپنی والدہ کے ساتھ پیدل چلتا رہا اور اس تمام سفر کے دوران اپنی ننھی بہن کو اپنی کمر پر اٹھائے رکھا۔ نجانے اس معصوم نے یہ بوجھ کیسے اٹھایا، شاید ہم چاہیں بھی تو اس کا تصور نہ کر پائیں۔