لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام کو اپنے اولین دور میں جو مشکلات مخالف مذاہب کے پیروکاروں نے پہنچائیں ان سے زیادہ مصائب کا سامنا عصر حاضر میں فرقہ واریت کی صورت میں دین اسلام کو درپیش ہے۔ اپنے وقت کے جید علماکو مخالف فرقوں کی جانب سے نہ صرف دین کی تعلیم و ترویج کی روک ٹوک کا سامنا ہوتا ہے بلکہ بسااوقات تو فرقہ واریت کا یہ ناسور قتل و غارت گری جیسے واقعات کا بھی موجب بن جاتا ہے۔
ملک کے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی دعوت و تبلیغ کی زندگی بھی ایسی کٹھنائیوں اور مشکلات سے عبارت ہے۔اپنی زندگی کا ایک مشہور واقعہ سناتے ہوئے مولانا کہتے ہیں کہ ایک بار تبلیغ کے سلسلے میں انھیں اپنے امیر کے ہمراہ کسی دور افتادہ مقام پر جانے کا اتفاق ہوا۔کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ۔ایک بہت ہی طویل سفر تھا۔ چلتے چلتے ہم لوگ بہت زیادہ تھک گئے۔ایک جگہ قیام کیا۔ کچھ تبلیغ کی اور وہیں پر سو گئے۔اچانک ہمیں کچھ آہٹ سنائی دی تو ہماری آنکھ کھل گئی۔کیا دیکھتے ہیں کہ آٹھ دس لمبے چوڑے نوجوان ہاتھوں میں ٹوکے اور چھرے اٹھائے ہوئے ہمارے بالکل قریب کھڑے ہیں۔ میرے ساتھ جو امیر تھے انھوں نے یہ عالم دیکھا تو گھبرا کر کہنے لگے مولانا صاحب یہ کون لوگ ہیں ۔کیا کررہے ہیں انھیں کچھ سمجھائیے۔میں نے امیر سے کہا کہ حضرت شہادت کا وقت آن پہنچا ہے ۔کلمہ پڑھ لیجیے۔
پھر میں اپنی ٹھیٹ جانگلی (جنگلی )زبان میں ان سے مخاطب ہوا اور کہا “ذرا تھوڑی دیر کیلئے ہماری بات توسن لو”۔ میری زبان ان کیلئے شاید کچھ جانی پہچانی تھی ۔اس لیے ان کے چہروں پر حیرت کے اثرات نمایاں دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا تو اس نے بھی اسی جانگلی زبان میں کہا”ٹھیک کہہ رہا ہے ذرا اس کی بات تو سن لی جائے”۔ اس کے بعد وہ اپنے ٹوکے اور چھرے ایک طرف رکھ کر آرام سے بیٹھ گئے اور میں نے انھیں اپنی بات تحمل سے سمجھائی ۔ میرے بات سننے کے بعد وہ نوجوان یکسر بدلے ہوئے دکھائی دیے اور کہنے لگے۔ “آپ ہمارے ساتھ چلیے آج ہم آپ کا روزہ افطار کرائیں گے”۔ تو میں نے ان سے (جانگلی زبان میں ) پوچھا کہ یہ ٹوکے اور چھرے کیوں اٹھائے پھر رہے ہو ؟ تو انھوں نے جواب دیا “ہمارا مولوی کہتا ہے کہ یہ وہابی ہیں انھیں مار ڈالو”۔ اس کے بعد وہ ہمیں ساتھ لے گئے اور مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ انھوں نے ہمیں گڑ والے بہت لذیذ میٹھے چاول افطاری کے وقت کھلائے۔