28 سالہ پاکستانی نوجوان کی شادی طے ہوئی تو اس نے سگریٹ نوشی چھوڑنے کی خوشخبری سنا دی،وہ اس قدر زیادہ سگریٹ نوشی کرتا تھا کہ۔۔۔۔

سگریٹ نوشی مضر صحت ہے اور دل کی بیماریوں و سرطان کا موجب بنتی ہے۔ ایک پاکستانی نوجوان چین سموکر نے بھی اس لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے گھر والوں کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ رہا جنہوں نے اسے لاہو کے ایک بحالی مرکز میں داخل کرا دیا۔
لیکن داخلے کے صرف 3 دن بعد ہی اس کی موت کی خبر آ گئی اور جب واقعے کی تفتیش ہوئی تو انتہائی ہوشربا انکشافات سامنے آئے کہ جان کر ہر کوئی بلبلا اٹھا۔ اسے کس طرح اور کیوں موت کے گھاٹ اتارا گیا اور پھر کس طرح واقعے کو چھپانے کی کوشش کی گئی؟ تمام تفصیلات جان کر آپ بحالی مرکز کے پاس سے گزرنا بھی چھوڑ دیں گے۔
28 سالہ آکاش ارسلان اپنی شادی کو لے کر اتنا خوش تھا کہ اس نے سگریٹ نوشی چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس کے بڑے بھائی صبغت کھوکھر کا کہنا ہے کہ ”جب اس نے ہمارے اپنی خواہش کے بارے میں بتایا تو ہم حیران رہ گئے کیونکہ وہ ایک چین سموکر تھا اور کئی سالوں سے سگریٹ نوشی چھوڑنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔
اسے وعدے کے مطابق ایک نفسیاتی ڈاکٹر اور لاہور میں واقع ایک بحالی مرکز لے جایا گیا۔ لیکن انہوں نے سگریٹ نوشی چھوڑنے میں مدد کرنے کے بجائے اسے مار دیا۔ بحالی مرکز میں داخلے کے تین روز بعد ہر کوئی خوشی سے نہال تھا لیکن اسی لمحے اس کی موت کی اندوہناک خبر سننے کو مل گئی۔“
مقتول کو مبینہ طور پر بحالی مرکز کی انتظامیہ نے تشدد کر کے ہلاک کیا۔ ارسلان کا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور وہ ایک پیٹرول پمپ کا مالک تھا۔ اس کے دو بڑے بھائی ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہیں جبکہ تیسرا بھائی ایم بی بی ایس گریجوایٹ ہے۔
وہ ایک جولی قسم کا ہنس مکھ لڑکا تھا اور صرف ایک ہی مسئلہ تھا کہ وہ کثرت سے سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا تھا۔ وہ اس قدر زیادہ سگریٹ نوشی کرتا تھا کہ اب وہ خود ہی اس عادت سے پریشان ہو چکا تھا اور اس سے جان چھڑانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اس کی ہلاکت کے چند ہفتے قبل اس کی شادی کی تاریخ طے پائی جو 4 اکتوبر تھی۔
اس نے شادی سے پہلے تمباکو نوشی چھوڑنے کا اعلان کیا اور اس مقصد کیلئے ایک بحالی مرکز میں داخلہ لے لیا۔ رشتہ دار اس کا فیصلہ سن کر خوشگوار حیرت میں مبتلا تھے۔ اس کے بڑے بھائی ذیشان حسن خود اس مرکز میں گئے اور اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر دلاور سے ملاقات کی۔
انہوں نے بتایا کہ آکاش کو یہاں 40 روز تک رہنا ہو گا اور اس کیلئے ایک لاکھ 75 ہزار روپے بھی لئے جس کے بعد 16 ستمبر کو اسے بحالی مرکز میں داخل کر لیا گیا۔ 20 ستمبر کو ذیشان حسن کو 12 بج کر 40 منٹ پر ڈاکٹر دلاور کی فون کال موصول ہوئی جنہوں نے بتایا کہ مریض کو جناح ہسپتال داخل کرا دیا گیا ہے اور اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس پر آکاش کے گھر والے گوجرانوالہ سے لاہور جناح ہسپتال روانہ ہوئے۔
جب وہ ہسپتال پہنچے تو آکاش دم توڑ چکا تھا جبکہ اس کے بھائی ذیشان حسن نے جسم پر تشدد کے نشانات اور خون کے دھبے دیکھے۔ جب انہوں نے اس کا جسم اور سر چیک کیا تو دیکھا کہ وہ بھی خون سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس پر انہوں نے دلاور سے زخموں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ آکاش سیڑھیوں سے گر گیا تھا۔
آکاش کے گھر والوں نے پوسٹ مارٹم کرانے اور پولیس میں مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا اور اسی دوران ڈاکٹر دلاور بھی روپوش ہو گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ آکاش کو اس قدر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ اس کی 10 پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں جبکہ اس کی موت بھی تشدد کے کچھ دیر بعد ہی ہو گئی تھی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ” آکاش کو آنے والے زخم موت سے پہلے کے تھے اور اندرونی چوٹوں کی صورت میں تھے۔ اس کی موت اہم جسمانی اعضائ، پھیپھڑوں اور جگر کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ہوئی جبکہ سر پر لگنے والی چوٹ بھی جان لیوا تھی۔“
پولیس نے تمام نامزد افراد کو گرفتار کر لیا اور معاملے کی تفتیش شروع کر دی۔ تفتیشی افسر شفیق بھٹی نے نجی خبر رساں ادارے ”ایکسپریس ٹریبیون“ کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتول کو بحالی مرکز کی انتظامیہ اور ملازمین نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث اس کی موت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ”جب آکاش نے اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی ضد کی تو اس پر بحث ہوئی اور پھر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بحالی مرکز میں مریضوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا معمول کی بات ہے۔“
ایک عینی شاہد کھوکھر کے مطابق بحالی مرکز کے وارڈن عاطف نے پیزا طلب کرنے پر آکاش کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ مقتول کے بھائی ذیشان نے ایک لاکھ 75 ہزار روپے ایڈوانس دئیے تھے اور اس کے علاوہ بھی رقم ادا کی تھی کہ اگر آکاش کچھ کھانے کیلئے مانگے تو اسے دیدیا جائے۔
ذیشان کے مطابق ” آکاش کھانے کا شوقین تھا اور میں نے دلاور سے کہا تھا کہ وہ کچھ بھی کھانے کو مانگے، اسے دیدیا جائے۔اسے دوسروں کے ساتھ کھانا اچھا لگتا تھا۔ واقعے کے روز اس نے اپنے ساتھی مریضوں سے کہا کہ وہ انہیں پیزا کھلائے گا۔ اس نے سینٹر کے وارڈن عاطف سے پیزا آرڈر کرنے کو کہا۔ لیکن عاطف اس کی بات سننے کے بجائے گالیاں دینے لگا۔ عاطف کہنے لگا ’تم نشے کے عادی ہو، تم کوکین لیتے ہو، تم ایک گندے غریب آدمی ہو، وارڈن نے یہ بھی کہا کہ انہیں کھانے کیلئے کوئی رقم نہیں دی گئی۔
بحث طویل ہوئی تو ڈاکٹر دلاور نے مداخلت کی اور کھوکھر کے مطابق اس نے آکاش کو تھپڑ رسید کیا اور عاطف سمیت دیگر لوگوں کو چہرے کے علاوہ جسم کے تمام حصوں پر تشدد کرنے کو کہا۔ بحالی مرکز کے چار ملازمین نے اسے مارنا شروع کر دیا اور لاتیں، گھونسے برساتے رہے۔
اس کے بعد انہوں نے معافی مانگنے کو کہا۔جب آکاش نے انہیں چھوڑنے کو کہا تو وہ پاﺅں کو ہاتھ لگانے کا مطالبہ کرنے لگے اور تشدد کرنے سے باز نہ آئے۔ بالآخر آکاش ہوش و حواس کھو بیٹھا اور وہ اسے مارتے رہے۔“
کھوکھر نے مزید بتایا کہ ”جب آکاش گر چکا تھا تو وہ اسے طنزیہ انداز میں کہہ رہے تھے ’کھاﺅ پیزا، تم اٹھ کر پیزا کیوں نہیں کھاتے؟ ملزموں سے ایک شخص ڈسپنسر تھا جو کچھ دیر تشدد کے بعد آکاش کی نبض چیک کرتا تھا۔ اس دوران آکاش کا بھی دیوار کیساتھ ٹکرایا جس پر وہ چلایا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا اس پر بھی انہوں نے تشدد جاری رکھا۔ وہ پانی مانگ رہا تھا، لیکن انہوں نے اس پر لاتیں برسانا جاری رکھا، بالآخر وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں