’اگر یہ کام ہوتا رہا تو 5 کروڑ پاکستانی کینسر کا شکار ہوجائیں گے‘ہر کوئی سیاست میں مصروف دوسری طرف پاکستانیوں کیلئے خوفناک خبر آ گئی

ہمارے ہاں یہ شکایت تو عام سننے کو ملتی ہے کہ پینے کے لئے صاف پانی دستیاب نہیں، لیکن دراصل ہم کتنا آلودہ، بلکہ زہر آلود، پانی پی رہے ہیں اور اس کی وجہ سے کتنے پاکستانی موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، یہ خوفناک انکشاف پہلی بار سامنے آیاہے۔

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیر زمین پانی میں زہریلی دھات آرسینک (سینکھیا) کی غیر معمولی مقدار کی وجہ سے تقریباً پانچ کروڑ افراد کینسر کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سال 2013ء سے 2015ء کے درمیان 1200 سے زائد جگہوں سے لئے گئے پانی کے ہزاروں نمونوں کے تجزیے کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تقریباً 9 کروڑ افراد آلودہ پانی پی رہے ہیں، جن میں سے تقریباًپانچ کروڑ کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ آرسینک سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔
اس سے پہلے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں تقریباً 15 کروڑ افراد آرسینک سے آلودہ پانی پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں یا اسے کھانا پکانے اور کھیتی باڑی کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آرسینک سے آلودہ پانی استعمال کرنے والوں میں سے تقریباً ایک تہائی افراد پاکستان میں ہیں۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان میں ہر جگہ پینے کے پانی کے تجزیے کی ضرورت ہے، خصوصاً لاہور اور حیدر آباد جیسے گنجان آباد شہروں کے اردگرد کے علاقوں میں پانی کے تجزیے کی سخت ضرورت ہے۔ پانی میں آرسینک دھات کی ملاوٹ کے بارے میں یہ مفصل رپورٹ سائنسی جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع کی گئی ہے۔
متاثرہ علاقوں میں خصوصاً دریائے سندھ کے ارد گرد وسطی اور زیریں علاقے شامل ہیں۔ اسی طرح بھارت میں دریائے گنگا اور بنگلہ دیش میں دریائے برہم پترا کے اردگرد کے علاقوں میں بھی زیر زمین پانی آرسینک سے متاثر ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق فی لٹر پانی میں 10 مائیکروگرام سے زائد آرسینک خطرناک ہوتی ہے لیکن پاکستان سے لئے گئے اکثر نمونوں میں اس کی مقدار فی لٹر 10 مائیکروگرام سے خاصی زیادہ پائی گئی ہے۔
آرسینک ایک زہریلا مادہ ہے جو انسانی خلیات کو تباہ کرتا ہے، جلد کی بیماریوں، اعضاء کی خرابی ، دل کی بیماریوں اور کینسر کا سبب بھی بنتا ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ آرسینک جیسے خطرناک زہر کے علاج کیلئے ادویات میسر نہیں ہیں،ا ور یہی وجہ ہے کہ اسے لاعلاج قرار دیا جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں