اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ملک ریاض صاحب آپ کا نام ہر جگہ کیوں آجاتا ہے؟کراچی میں جو آپ کر رہے ہیں کیا وہ جائز ہے؟ جس پر چئیرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض نے کہا کہ میں
سارا کچھ سیٹل کرنا چاہتا ہوں آپ بس حکم کریں۔ملک ریاض کی اس بات پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے آپ سے ایک ہزار ارب روپے مانگے تھے آپ وہ دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ملک کو چلا رہے ہیں، ملک کا مال واپس کریں، زندگی گزارنے کے لیے آپ کو کتنے ارب روپے چاہئیں، وہ رکھ لیں باقی دے دیں۔ آپ حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں۔آپ کہتے ہیں کہ آپ کو ایک پلاٹ کا علم نہیں تھا۔ ملک ریاض نے کہا کہ میں نے کبھی ملک نہیں چلایا۔میری جائیداد چاہیں تو لے لیں، علی ریاض کا گھر چاہیں تو لے لیں، شکر کریں پاکستان میں کوئی 70 منزلہ عمارت بنی ہے۔ جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق سمیت دیگر جے آئی آرکان سپریم کورٹ میں موجود ہیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان ابوطالب، پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف، لطیف کھوسہ، فاروق ایچ نائیک، فرحت اللہ بابر اور دیگر بھی عدالت میں موجود ہیں۔عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے ان سب کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے، آپ کے پاس کیا جواز ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیا جواز ہے، یہ
اقدام شخصی آزادیوں کے منافی ہے۔چیف جسٹس نے دوران سماعت حکومت کی جانب سے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے معاملے پر کہا کہ مراد علی شاہ وزیراعلیٰ ہیں ان کا احترام ہونا چاہئیے تھا۔اگر جے آئی ٹی کی سفارش تھی تو عدالتی حکم کا ہی انتظار کر لیتے، جے آئی ٹی کے وکیل نے کہا کہ کابینہ نے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مراد علی شاہ سندھ کی وزارت اعلیٰ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی منتخب نمائندے کی نا اہلی کی بات نہیں کی۔ سپریم کورٹ نےای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے وزیرداخلہ شہریار خان آفریدی سے جواب طلب کرلیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ای سی ایل میں نام ڈالنا اتنی معمولی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کیسے لیک ہوگئی، سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ہمارے سیکریٹریٹ سے کوئی چیزلیک نہیں ہوئی، میڈیا نےسنی سنائی باتوں پرخبریں چلائیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے جواب داخل کرانے کے لیے مزید ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی گئی جو عدالت نے منظور کرلی۔ یاد رہے کہ جے آئی ٹی سربراہ نے 20
دسمبر کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی اور بعدازاں حکومت نے رپورٹ کی روشنی میں پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے تھے۔