اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ عراق پر حد سے زیادہ حفاظتی انتظامات کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ٹرمپ نے خود بھی دورے پر تشویش کا شکار ہونے کا اعتراف کیا ہے جبکہ عراقی وزیراعظم سے دوری رکھنے، خفیہ اہلکاروں کی شناخت بے نقاب کرنے سمیت کئی وجوہات کی بنا پر یہ دورہ تنقید کا شکار ہوگیا ہے۔عراقی پارلیمنٹ کے
متعدد ارکان نے ٹرمپ کے دورے کی مذمت کی ہے۔صدر بننے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک کسی بھی خطرناک علاقے کا دورہ نہیں کیا تھا۔ وہ تاحال افغانستان نہیں گئے جبکہ عراق کا بھی یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ کرسمس پر امریکی صدر اچانک عراق پہنچنے جہاں انہوں نے امریکی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں۔امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو لے کر امریکہ کا صدارتی طیارہ ایئرفورس ون غیراعلانیہ طور پر اس طرح واشنگٹن سے روانہ ہوا کہ رات کی تاریکی میں واشنگٹن کے اوپر پرواز کرتے ہوئے اس کی روشنیاں گل رکھی گئیں، کھڑکیوں کے شٹر بھی بند تھے۔ بدھ کی شب رات کی تاریکی میں ہی اس نے بغداد کے مغرب میں ہوائی اڈے پر لینڈنگ کی۔سابق امریکی صدر جارج بش چار مرتبہ اور باراک اوباما ایک مرتبہ عراق کے دورے پر گئے تھے۔ تاہم ان کے دوروں کے وقت عراق میں جنگ جاری تھی۔ اس وقت اگرچہ جنگ بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے اور عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد بھی صرف 5 ہزار تک گھٹا دی گئی ہے تاہم ٹرمپ کے طیارے کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے لیے غیرمعمولی احتیاط برقرار کی گئی۔ جب کہ دیگر حفاظتی انتظامات دونوں سابقہ صدور سے بڑھ کر تھے۔امریکی صدر بغداد کے نواح میں موجود
ہونے کے باوجود عراقی وزیراعظم عبدالمہدی سے ملنے کیلئے عراقی دارالحکومت کے اندر نہیں گئے۔ نہ ہی انہوں نے عراقی وزیراعظم کو امریکی اڈے پر آنے دیا۔ دونوں رہنمائوں نے صرف فون پر بات کی۔ امریکہ کے اے بی سی نیوز ٹی وی کے مطابق ٹرمپ کی اس حرکت کو عراق میں وزیراعظم کی توہین کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق عراقی پارلیمنٹ کے دو گروپوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ٹرمپ کے دورے کی مذمت کی۔ یہ ارکان پارلیمنٹ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔دورے پر ٹرمپ کی اہلیہ ملانیا بھی ان کے ساتھ تھیں۔ دونوں نے تین گھنٹے سے زائد عراق میں گزارے۔ انہوں نے امریکی فوجیوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔امریکی خفیہ اہلکاروں کی شناخت افشاتاہم ان تصاویر پر امریکی صدر تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ امریکی جریدے نیوز ویک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اسپیشل آپریشنز یونٹس کے اہلکاروں کے ساتھ تصاویر بنوا کر ان اہلکاروں کی شناخت عیاں کردی ہے۔ حالانکہ یہ معلومات امریکی عوام سے بھی مخفی رکھی جاتی ہیں۔نیوزویک کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے تصاویر اور ویڈیو جاری کرنے
کی وجہ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ امریکی نیوی سیلز کی ایک ٹیم عراق میں تعینات ہے۔ واضح رہے کہ نیوی سیلز امریکہ کے اعلیٰ ترین کمانڈو دستے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن میں نیوی سیلز کی ٹیم نے حصہ لیا تھا۔ٹرمپ نے نیوی سیلز کی ٹیم فائیو کے چیپلن کیو لی کے ساتھ تصویر بنائی جو پوری دنیا کے سامنے آگئی۔ اس تصویر میں چیپلن کے پیچھے ملانیا ٹرمپ بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ٹرمپ کا اعتراف ٹرمپ کے دورے میں سیکورٹی اتنی سخت تھی کہ جب تک ٹرمپ نے امریکی فوجیوں سے خطاب کے بعد واپسی کی تیاری نہیں کرلی کسی صحافی کو ان کے دورے کی خبر نشر یا جاری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ انہیں حفاظت کے حوالے سے خدشات لاحق تھے۔ سیکورٹی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ ’’مجھے اپنی ذات کی نہیں لیکن امریکی صدارت کے ادارے کے حوالے سے فکر تھی، مجھے خاتون اول کی فکر تھی۔‘‘ووٹ بٹورنے کی کوششٹرمپ کے اس دورے کو آئندہ صدارتی انتخابات میں ووٹ لینے کی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک سابق خاتون فوجی شارلٹ کلیمر نے ٹؤئٹر پر لکھا کہ ٹرمپ صرف اس لیے عراق گئے ہیں کہ لوگوں کو
پتہ چل گیا ہے کہ 2002 کے بعد سے وہ واحد امریکی صدر ہیں جنہوں نے کرسمس فوجیوں کے ساتھ نہیں گزارا۔ ٹرمپ کو فوجیوں یا سابق فوجیوں کی پرواہ نہیں۔ ہم لوگ صرف اس کی انا کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔