لاہور(ویب ڈیسک) پاکستان پر بے پناہ تنقید کی اور اس کا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے اور بھرپور انداز میں امریکہ اور صدر ٹرمپ کو پاکستان کے نقطہ نظر سے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ ایسا لگتا ہے وزیر اعظم موقع ڈھونڈ رہے تھے اورتیار بیٹھے تھے کہ امریکیوں کو سنائیں ،صدر ٹرمپ کے چھ جملوں کے جواب میں
وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی ہے اور کہا کہ امریکہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے ہماری قربانیوں پر غور کرے امریکہ کو پاکستان سے متعلق ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔اس حوالے سے ممتاز سینئر صحافی زاہد حسین نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فوکس ٹی وی سے انٹرویو میں صدر ٹرمپ کا لہجہ بہت تیز اور ہتک آمیز تھا ، اسی طرح امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے اسلام آباد سے نئی دہلی پہنچ کر وہی باتیں کی تھیں جو آج امریکی صدر کر رہے ہیں یعنی پاک امریکہ تعلقات میں جو زوال آیا تھا وہ ابھی تک جاری ہے باوجود اس کے کہ ان کو ابھی تک ہماری ضرورت ہے امریکی حکام کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتالیکن امریکی صدر ٹرمپ یہ طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان کا ہاتھ مروڑ کر کام لیا جائے ، ٹرمپ نے جس طرح پاکستان کی تضحیک کی ،وزیر اعظم کے لئے ایسا جواب دینا ضروری تھا۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ امریکہ 17سال سے افغان جنگ میں ملوث ہے آج افغانستان کی صورتحال 2003 سے بھی بدتر ہے اس کا مطلب
یہ ہے کہ ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی ۔کیا امریکی پالیسی میں کوئی خرابی نہیں تھی؟امریکہ نے کھربوں ڈالر افغانستان میں جھونک دئیے اس کے باوجود یہ صورتحال ہے کہ وہاں ہزاروں افغان مارے گئے ہیں ،بہت زیادہ تباہی آئی ہے اس کے باجود امریکہ کو مجبوراً یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل ضروری ہے ۔بہت سی چیزوں میں ٹرمپ کی پالیسی میں توازن نہیں ہے پاکستان کے حوالے سے وہ کچھ زیادہ ہی آگے چلے گئے ہیں ۔امریکہ کو پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ اس کی پالیسی کیا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے اس کے ساتھ ہمیں اپنی پالیسی پر بھی غور کرنا چاہئے ،ہم نے یہ تاثر دیا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد امریکہ سے نئے تعلقات کا آغاز ہوگیا ہے ، ہمیں ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے ۔ امریکہ میں ہماری سفارتی صورتحال بھی کمزور ہے ، چار ماہ کے بعد امریکہ میں ہمارا سفیر ختم ہوجاتا ہے گویا ہماری طرف سے بھی کوئی نئی سفارتی کوشش نہیں کی گئی۔ اب بھی ’’ادلے کا بدلہ‘‘ کے بیانات تو چلتے رہیں گے ہمیں سنجیدہ رویہ بھی اختیار کرنا چاہئے امریکہ سے ہمارے تعلقات ختم نہیں ہونے چاہئیں اور اس حوالے سے
توازن قائم رکھنا ضروری ہے ۔