لاکھوں واقعات بکھرے پڑے ہیں کہ ان کو دنیا کی ستم نے ان کے پاؤں میں ذرا بھی لغزش پیدا نہ ہونے دی اور وہ اپنے توحید پر ڈٹے رہے ۔ عشق رسول اور عشق خدا سے سرشار ایک نومسلم دوشیزہ کی روح فرسا داستاں جو بھوپال شہر کے پنڈت اور متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والی گیتا شرما (بدلا ہوا نام) کا ہے ۔ راقم نے جب ان سے سوال کیا کہ آپ کس طرح
ایمان لائے اور کن کن مصائب سے دوچار ہوئیں تو انہوں نے جو انکشاف کیا وہ دل کو خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ میرا نام گیتا شرما ہے(بدلا ہوا نام) میں ایک پنڈت گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں میں نے BBAاور MBAسکنڈ سال کیا ہے میرے خاندان کے لوگ بہت ہی اچھے تھے، پاپا کا بزنس تھا وہ شراب کے ٹھیکہ چلاتے تھے، اور میں کوٹک مہندرا لائف انشورنش میں بطور ڈرائیور کام کرتی تھی۔ ہماری آفس میں کچھ دوست تھے جو مسلم گھرانے سے تعلق رکھتے تھے تھے ۔ ہم لوگ پارٹی ڈسکو وغیرہ انجوائے کیاکرتے تھے کیوں کہ شہروں میں لڑکی اور لڑکے ایسے ہی رہتے ہیں اور میں ایک بہت بڑے بزنس مین کی بیٹی تھی تو ہمارے یہاں یہ بات معیوب بھی نہیں تھی ۔ 2013ء کی بات ہے جب اس سال رمضان آیا اور مجھے اس سے پہلے پتہ نہیں تھا کہ رمضان کیا ہوتا ہے۔ میں نے رمضان المبارک میں ایک پارٹی رکھی اور اپنے دوستوں کو بھی بلایا جس میں سمرین، عائشہ، اور ذوالفقار ، عمران شعیب یہ تمام مسلمان دوست نہیں آئے۔ اور میں نے دیکھا کہ تمام لڑکیاں برقعے میں آنے لگی، اور لڑکے ٹوپی لگانے لگے تو میں نے کہاکہ تم
لوگ پاگل ہوگئے ہو کیا؟ تو ان انہوں نے بتایاکہ یہ ہمارے اللہ کا سب سے پاک مہینہ ہے، اس میں ہم ہر وہ کام سے دوری اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کرنے کو منع فرمایا ہے۔ اب مجھے غصہ آگیا اور کہا تم کچھ کھاؤگے بھی نہیں اس مہینے میں ہمارے ساتھ تو میں کیا کھاؤں گی اکیلے ؟ میں بھی روزہ رکھوں گی۔ میں نے بھی تین روزے سے روزہ رکھنا شروع
کردیا اس وقت یہاں برسات ہورہی تھی ہم لوگ سب ساتھ میں روزہ رکھتے تھے صبح مجھے فون کرکے میرے مسلم دوست اٹھادیتے، صحری کراتے شام کو افطاری ۔ ہم کبھی ان کے گھر میں یا کبھی ہوٹل میں افطاری کرتے۔ میں اللہ اور اس کے نبیﷺ کی باتوں کو سنتی رہتی میں گاڑی بھی چلا رہی ہوتی تو کان میں اےئرفون لگا کر اسلامی بیانات سے اپنے دل کو منور کرتی رہتی۔ اسی وقت سے اللہ نے مجھے چن لیا میرے گھر والوں کو شک ہونے لگا کہ میں شلوار سوٹ اور نقاب باندھنے لگی ہوں، میرے فون کی رنگ ٹون بھی اللہ کے نام کی نظم ہوگئی تھی۔ ایک دن میری بہن اور اور بہنوئی آئے مجھے لے کر مندر گئے میں نے صاف منع کردیا اندر جانے سے اور پوجا کرنے سے وہ گھر آکر بہت ڈانٹے اور گھر میں ہنگامہ برپا ہوگیا امی ابو کہنے لگے کہ یہ کوئی مسلمان لڑکے سے پیار تو نہیں کربیٹھی ۔۔۔میں اپنے گھر کی مصیبت بنتی جارہی تھی سب لوگ پریشان رہتے مسلمانوں کی غلط چیزوں کو دکھاتے، مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے آتنک وادیوں کی کلپ بتاتے پتہ نہیں اور کیا کیا مجھے دکھاتے تاکہ میں اسلام سے متنفر ہوجاؤں ۔ لیکن میرے دل میں تو خدا کی محبت رچ بس گئی
تھی ایک دن مجھے قرآن پاک دیکھنے کی دل میں خواہش پیدا ہوئی میں پاس کی ایک مسجد میں گئی جہاں میں نے کلام پاک مانگا اور اسے بائیں طرف سے دیکھنے لگی انہوں نے کہاکہ یہ کیا کررہی ہو یہ طریقہ صحیح نہیں ہے ۔ اسی وقت میں نے اس دکاندار سے اپنے دل کی بات سچ سچ بتادی اس وقت انہوں نے مجھے ایک آپا جی کا نمبر دیا جو قرآن پڑھاتی تھی، پھر
میں ان کے وہاں گئی اور اس وقت میں اپنی کار سے گئی تھی ابو اور بھائی میرے پیچھے پیچھے تھے لیکن مجھے پتہ نہیں تھا ،میں کار سے اتر نے لگی تو میں نے کار کی کانچ میں دیکھا کہ پیچھے ابو ہیں تو میں نے باجی کو دور سے اشارہ کرکے روک دیا ۔ پاپا مجھے وہیں مارنا شروع کردئے اور مجھے لے کر گھر آگئے۔ اسی دن میں نے یہ طے کرلیا کہ جب میں نے غلط کیا تو کسی نے نہیں روکا اور آج میں کچھ اچھا کرنے جارہی ہوں تو سب روک کیوں رہے ہیں؟ میں نے خدا سے اپنی محبت کا اعلان کر ہی دیا ۔ رمضان کے آخری روزے کے دن میں نے اسلام قبول کرلیا ۔ ابو نے میرا موبائل فون چھین لیا اور مجھے بہت کچھ کہا میں نے بھی کہہ دیا کہ میں اس اللہ سے اور اس کے نبیﷺ سے محبت کرتی ہوں آپ کو جو بھی کرنا ہے تم کرلو میں دین حنیف سے پھر نہیں سکتی پھر میں نے اللہ سے دعا کی اور روتے روتے میں چھت پر چلی گئی وہاں میں دیکھتی ہوں کہ آسمان میں کعبہ شریف میرے سامنے ہے ایسا منظر تھا کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی وہ کیا منظر تھا اور ایسے کئی دیگر چمتکار ہونے لگے مثلاً میں جو نیت کروں اللہ اسے پوری کردیتے تو میں نے آخری بار اللہ سے دعا
کی کہ اگر میں تجھے پا نہیں سکتی تو تیرے پاس ہی آجاناچاہتی ہوں ۔ میں نے رات چار بجے کے قریب بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر ہارپک تیزاب پی لیا اور پھر کیا ہوا ایمبولینس آئی اور مجھے پاس کے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا ابو نے ڈاکٹر کی باہر سے ٹیم بلوا لی کہ مجھے کسی بھی طرح کسی بھی حال میں بچا لیا جائے ڈاکٹر نے بھی تھوڑا گھبرا رہے تھے میرا کیس
لینے سے ۔ میرے گلے سے پیٹ تک پورا اندر سے جل گیا میرے آنت کی ایک پائپ خراب ہوگئی۔ 19دن تک آئی سی یو میں رہی اور پھر باہر آئی میں خدا کی قدرت سے بچ گئی تھی اس وقت بھی میں اپنے منہ سے صرف اللہ اللہ کہتی رہی اور ابو مجھے سمجھاتے رہے انہوں نے کئی تانترک کو لے آئے اور گھر میں پوجا کروائی میں ہاسپٹل میں آئی سی یو سے نکل کر پرائیوٹ روم میں آگئی تھی وہاں سے میں اپنے لیپ ٹاپ میں نیٹ سے سرچ کرتی رہی پھر مجھے میرے فیس بک دوست نے کھتولی کے عبدالقدیر بھائی کا نمبر دیا میں نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے کہاکہ مجھے آنا ہے پھر میں نے کہاکہ میں یہاں سے تین دن میں ڈسچارج ہوجاؤں گی انہوں نے میرے لیے اے سی ٹکٹ بک کروایا میں اپنے گھر میں بہت برا محسوس کرتی تھی مجھے گھٹن سی محسوس ہوتی تھی پھر میں گھر سے مکمل طور پر ناطہ توڑنے کا فیصلہ کرلیا اور وہاں سے بھاگ گئی اور میں نے بھوپال سے اے سی کوچ میں بیٹھ گئی، اور میں حضرت نظام الدین پہنچ گئی، وہاں مجھے شاہنواز اور قدیر بھائی لینے آئے وہ مجھے لے کر مظفر نگر کے پاس کھتولی گاؤں لے گئے وہاں آکر میں نے ان کے گھر والوں کو اپنے ساتھ پیش آئے واقعات سے بتائے اور بہت جلد جلد اسلام سیکھنے لگی میں نے قرآن
پاک انگلش میں اور ہندی میں پڑھ لیا کافی عورتیں مجھے دین سکھاتی تھیں میں دن بھر وہاں رہ کر کتابیں پڑھتی میں نے وہاں بہت ہی قلیل مدت میں بہت کچھ سیکھ گئی۔ پھر حضرت مولانا کلیم صاحب صدیقی کے بارے میں مجھے بتایاگیا میں نے کہاکہ یہ کون ہیں میں ان سے ملنا چاہتی ہوں عبدالقادر بھائی نے کہاکہ ان سے ملنا آسان کام نہیں ہے میں نے کہاکہ ٹھیک
ہے انشاء اللہ میں کہتی ہوں کہ میں ان کے پاس نہیں بلکہ وہ خود میرے پاس آئیں گے ۔ سبھی نے میرا مذاق اڑایا پر اللہ میرے دل کا حال جانتا تھا پھر عبدالقادر بھائی نے مجھے ایک کمرہ دیا میں وہاں دو مہینے رہی اور میں نے حضرت بلال کا قصہ سن رکھا تھا کہ ان سے کوئی شادی نہیں کرتا ہے تو اللہ کے محبوب کہتے ہیں حضرت بلال جنتی ہے ۔ جب میرا رشتہ آیا تو میں نے نکاح کے لیے بنا دیکھے ہی ہاں کردی تھی اور کہا کہ قدیر بھائی آپ جو بھی کریں گے اچھا ہی کریں گے پھر حضرت مولانا کلیم صاحب صدیقی عبدالرحمن (دھان سنگھ ) کا رشتہ لے کر مجھ سے خود ملنے کھتولی آئے ۔اور میرانکاح جمعہ کے دن عصر کے وقت بتاریخ13.12.13کو ہوا۔ حضرت نے ہی نکاح پڑھایا، پھر مجھے رخصت کیاگیا ۔ مجھے ماں باپ سے دور ہونے پر اتنے آنسو کبھی نہیں آئے جتنا آنسوقدیر بھائی اور بھابھی سے دور ہونے پر آرہے تھے۔ عبدالرحمن سے میرا نکاح ہوئے تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے دل میں پیسوں کی لالچ آئی انہیں یہ علم ہوگیا تھا کہ میں ایک مالدار اور صاحب ثروت گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں لہذا وہ مجھے ہراساں کرنے لگے اور میں انہیں لے کر اپنے آبائی وطن
بھوپال آگئی وہاں میرے ابو نے مجھے قبول کرلیا اورا نہوں نے کہا جہاں تو خوش ہے ہم بھی وہاں خوش ہیں۔ میں نے دین کی دعوت اپنے گھر کے فرد کو دینی شروع کردی لیکن انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ لیکن مجھ سے محبت کرتے تھے لہذا میرے ابو نے کہا کہ وہ مجھے ایک لاکھ روپئے اور کچھ زیورات اور گھر بسانے کے لیے پیسہ دیں گے، ہم بھوپال میں ہی
تھے کہ عبدالرحمن نے میرے پاپا کے فون سے اپنے کسی دوست سے بات کی ابو کے فون پر کال ریکارڈ ہوگیا جس میں ان کا دوست پوچھتا ہے کہ بھائی کیا کیا ملا؟ تو عبدالرحمن نے کہاکہ بھائی ابھی تو ایک سونے کی چین اور دس ہزار روپئے ہی ملے ہیں، واپسی کے وقت باقی روپیہ اور سامان بھی دیں گے پاپا نے یہ ریکارڈنگ سن لی اور ہمیں ابو نے کچھ نہیں دیا۔ ہم اندور سے دہلی آنے لگے عبدالرحمن مجھے اپنی بہن کے گھر لے گیا اس کا رویہ ٹرین میں ہی بدل گیا تھا پر میں سمجھ نہیں پائی اور پھر نے ایک نیا ڈرامہ شروع کردیا۔ وہ بھی نو مسلم ہی تھا صرف حضرت کے پیسوں کے لیے ایمان لا ئے ہوئے ہے۔ یہ میری تقدیر تھی کہ عبدالرحمن نے مجھے کچھ وقت کھتولی میں رکھا اور میرے پاپا سے دو لاکھ روپیہ مانگنے لگا میں نے کہاکہ وہ حرام کی کمائی ہے میں نہیں لیناچاہتی اس نے کہاکہ ٹھیک ہے تو کچھ دن کے لیے اندور چلی جا میں جب تک کھتولی سے بلڈانہ سامان ٹرانسفر کر لوں گا جب تجھے بلالوں گا میں اندور پہنچی ہی تھی کہ انہوں نے فون پر مجھے الگ ہونے کی بات کردی ، میں بہت روئی پاگلوں کی طرح آناً فاناً دہلی پہنچ گئی جہاں ہمارا گھر تھا میں وہاں گئی تو مکان خالی تھا وہ وہاں سے غائب ہوچکا تھا میں پھلت حضرت کے پاس روتے ہوئے پہنچی تو حضرت نے اسے بلایا اس نے مجھ پر الزام لگایا کہ مجھے دین کی تعلیم نہیں ہے میں اسے نہیں رکھوں گا جب تک یہ مدرسے میں پڑھ کر نہ آجائے پھر مجھے میرٹھ کے مدرسے بھیجاگیا میں وہاں دو مہینے رہی دل وجان سے پڑھائی کی پھر مجھے وہ لینے آئے مجھے اس نے کیرانہ کے اسلام نگر کی عائشہ مسجد کے پاس لے گیا وہ ایسی جگہ تھی جہاں 24گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے ہی لائٹ آتی تھی۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا میں نے وہاں بھی گزارا کرلیا، اس نے پھر بھی مجھے پریشان کرنا نہیں چھوڑا مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا تھا میں بھی خوشی سے انہیں ایک ڈنڈا دیا اور جھاڑو کہ لو یہ مارو ۔۔۔مجھے اسلام لانے کی سزا دو ۔۔۔ اس نے مجھے بہت مارا اور طیش میں آکر مجھے طلاق دے دی، میں پاگل ہوگئی رو رو کر میرا برا حال ہوگیا تھا اس نے مجھے ایک ہی طلاق دی تھی پھر میں جے پور عبدالعزیز بھائی کے یہاں چلی گئی اور میں ان کے ساتھ حضرت سے ملی اور حضرت نے ہمارا نکاح دوبارہ کرادیا اور کورٹ سے پیپر بھی بنوا دیا پھر اس نے مجھے اندور بھجوادیا اور کہا کہ میں یہاں مکان دیکھ لوں جب تک تو وہیں رہنا میری ماں اور بہن تجھے لینے آئیں گے پھر وہ آئے اور مجھے ان کے آبائی گاؤں لے گئے اور میرے لیے ساری لائے اور ہندو طریقے سے لے گئے ۔عبدالرحمن نے مجھے کہاکہ جب تک گھر کا انتظام نہیں ہوتا تجھے میرے گھر ہی رہنا ہوگا وہاں مجھ سے ہر وہ اسلام مخالف امر کروا یا گیا جسے میں نہیں کرناچاہتی تھی لیکن بامر مجبوری تشدد کے ڈر سے مجھے کرنا پڑا۔ اس نے مجھے یہاں تک دھمکی دی کہ اگر تو کسی کو کچھ بتایاکہ پھلت، کھتولی جے پور میں رہ چکی ہوں تو مجھے مجبوراً طلاق دینا پڑے گا۔ میں نے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔یہاں سے جاتے وقت اس نے میرے پاپا سے بہت ساری چیزوں کا مطالبہ کیا تھا س میں LEDٹی وی بھی تھی اور بھی بہت سارے ساز وسامان تھے جو پاپا نے اسے دئیے۔ وہ مجھے لے گئے سات دن بعد میرے پاپا کو ہارٹ اٹیک آیا ۔ ہارٹ اٹیک بھی میری ہی وجہ سے آیا تھا کیوں کہ پانچویں دن مجھے میری ساس اور میرے شوہرنے بہت مارا میں وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی وہاں سب ہندو طریقے سے رہ رہے تھے نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی کوئی اسلامی کام ہوتا تھا مجھے وہاں وہ لوگ ہندو بناکر رکھے ہوئے تھے اس لیے اس کی ماں اور اس کے بہن نے میرے پاپا کو فون کرکے کہا کہ میں اب بھی ان لوگوں سے بات کرتی ہوں جن کو ہم چھوڑکے آئے ہوئے ہیں اس بات پہ میں نے اپنے ابو کو فون کیا کی پا پا یہ لوگ مجھے مارتے ہیں اتنی ٹھنڈ میں بیسو کے ڈنڈے سے اتنا مارتے ہیں کہ میں بیہوش ہوجاتی ہوں مجھے بچانے والا کوئی نہیں رہتا۔ کیو ں کہ پاپا مجھ سے بہت ہی محبت کرتے تھے انہوں نے یہ سب سنا تو انہیں ہارٹ اٹیک آگیا، اور ان کے بچنے کا 50فیصد ہی چانس تھا میں نے اپنے ابو کے یہاں آنے کے لیے تیار ہوگئی کیوں کہ لوگ طعنہ دیتے کہ لینے کے وقت آگئی تھی لیکن جب باپ مرنے لگا تو نہیں آئی ۔ لیکن ان ظالموں نے مجھے جانے نہیں دیا دو دن ہوگئے تھے پاپا کو بیمار ہوئے مجھے بہت مارتے تھے ۔ میں نے ان لوگوں سے کہاکہ ویسے بھی یہاں نہ میری نماز ہوتی ہے اور نہ ہی میں قرآن پڑھ پاتی ہوں مجھے جانے دو اس وقت اس نے مجھے منہ سے تین طلاق دے دی۔ اورمیں گھر آنے کے لیے تیار ہوگئی ابو کا بائی پاس سرجری ہونا تھا میں اسٹیشن کے لیے نکل چکی تھی ٹرین ٹھنڈ کی وجہ سے 15گھنٹے لیٹ تھی ۔عبدالرحمن طلاق دینے کے بعد مجھے چھوڑنے آئے ہم نظام الدین اسٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں تھے وہ عبدالرحمن وہاں بہت رویا اور پچھتاتے ہوئے کہا کہ میں نے تجھے دل سے طلاق نہیں دیا ہے تو اب بھی میرے ساتھ رہ لے میں نے انکار کردیا کیوں کہ ہمارا کورٹ سے طلاق نامہ بن چکا تھا ابرار بھائی کی موجودگی میں پھر عبدالرحمن کہنے لگا کہ میں کیا کروں گا حضرت نے پیسے واپس مانگے ہیں، میں کہاں سے دوں گا ۔اس نے کہا کہ تو مجھے یہ پیسے دے دے میں تجھے فروری2015 کو میں آکے دے دوں گا میں نے اسے چالیس ہزار روپئے دے دئیے اور وہ چلا گیا اور ایسا غائب ہوا ہے کہ اب تک اس کا کوئی پتہ نہیں نہ ہی اس کا فون لگ رہا ہے اور نہ ہی کوئی خبر؟ اب مجھے معلوم پڑا ہے کہ حضرت نے اسے کرناٹک جماعت میں بھیج دیا ہے؟ عبدالرحمن جو کہ نومسلم ہے جس سے میری شادی حضرت نے کرائی تھی وہ حضرت کو دھوکہ میں رکھے ہوا ہے حضرت کے سامنے اس کے ماں باپ پیسوں کے لالچ میں اسلام کا ناٹک کرتے ہیں اور اپنے آبائی وطن میں ہندو ہی رہتے ہیں۔ بقول گیتا شرما (بدلا ہوا نام ) اس لڑکے کا پورا خاندان ہندو ہے اور ہندو کے بیچ میں ہی وہ لوگ رہ رہے ہیں، حضرت نے اسے دو لاکھ روپئے دےئے تھے دکان کرنے کے لیے جسے اس نے اس رقم کو پراپٹی کے کام میں لگا دیا ہے اور ایک بھینس جو75ہزار میں لیا اسے اپنے بھائی کو دے دی، جس کا نام شیر سنگھ ہے، اس کے والدکا نام رام مہر سنگھ آزاد نگر اعلام گاؤں تھانہ کڈالہ ہے، اس نے حضرت کے دئیے ہوئے پیسوں سے گھر میں بھینس رکھی اور اس کے گھر میں شمرسیول کروایا، جب کہ وہ ہندو خاندان کا بھلا کررہا ہے میرا تمام سازو سامان اور حضرت نے 25ہزار روپئے دئیے تھے سبھی کو اس نے رکھ لیا مجھے کچھ نہیں دیا گیا، کیا میرا کوئی حق نہیں ہے اور میرے گھر سے جو جو لے کر آئے وہ بھی نہیں دیا، بھائی (راقم ) اس کے خاندان میں یہ 7لوگ ہیں عبدالرحمن عرف دھان سنگھ پوار (جو میرا شوہر تھا) ولد رام مہر سنگھ ہے ماں کا نام ویرامتی پوار ہے، بھائی شیر سنگھ بہن کومنت ہے اور ان کے باپ کا مرڈر ہوچکا ہے جو کہ ان کے چچا نے کرایا تھا، ان کے پتا جی نے ایک ڈکیت کا ساتھ دیا تھا جوکئی معصوم لوگوں کا مرڈر کیے ہوا تھا، اس کے سب سے بڑے بھائی جس کا نام گلو تھا اس کا مرڈر ہوچکا ہے، اس کے بہنوئی کا اس کی چھوٹی بہن سے افےئر چل رہا تھا، انہوں نے اپنی سالی کو پانے کے لیے اپنی بیوی کو مار دیا اور اس عبدالرحمن سے چھوٹی بہن جو کہ آٹھ نو سال کی تھی اس کو اس کے بھائی نے ڈنڈے سے اتنا مارا کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا جس سے اس کی موت واقع ہوگی۔ اس لڑکی کا کہنا ہے کہ یہ پورا خاندان کرائم مائنڈ ہے اور حضرت ایسے لوگوں کی ان جانے میں سرپرستی کررہے ہیں اگر حضرت اپنے گھر میں کسی کو رکھتے ہیں تو اس کا سب کچھ وہ جا ن لیں کہ وہ کون ہے کہاں سے آیا ہے کیا کرتا ہے ۔ عبدالرحمن عرف دھان �