اگر آپ کسی بیماری کے خلاف کسی نئی اینٹی بایوٹک کی تلاش میں ہیں تو آغاز کہاں سے کریں گے؟ کسی دلدل سے؟ کسی ویران جزیرے سے؟اپنی داڑھی میں کنگھی پھیرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟بی بی سی کے پروگرام ’ٹرسٹ می آئی ایم اے ڈاکٹر میں ہم ایسے ہی کچھ تجربات کرتے ہیں جس میں بعض اوقات صحیح سائنس بھی سامنے آ جاتی ہے۔مثال کے
طور پر گذشتہ سیریز میں ہم نے یہ جانا کہ آپ پاستا پکانے، ٹھنڈا کرنے اور پھر دوبارہ گرم کرنے سے اس کے اندر موجود کیلوریز کم کر سکتے ہیں۔یہ ایک خوشگوار نتیجہ تھا۔ لیکن ہماری حالیہ دریافت زیادہ اہم ہے، یعنی ایسے بیکٹریا کی دریافت جو اینٹی بایوٹک کا کام دیتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ داڑھی میں پائے جاتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ داڑھیاں عموماً کالی ہوتی ہیں۔ ٹھوڑی پر لکیر کی شکل میں، گلے پر داڑھی یا وین ڈائیک سٹائل کی۔محققین کے خیال میں شیو کرنے سے جلد پر خراش لگتی ہے ’جس سے بیکٹریا کی نشوونما میں مدد ملتی ہے‘بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ داڑھیوں سے رغبت نہ صرف پریشان کن ہو سکتی ہے بلکہ یہ نامناسب جراثیم کی منتقلی کا کام بھی دیتی ہیں۔تو ایسے کیا شواہد ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھیوں کا صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے پوگونوفوبیا یعنی داڑھی سے ڈر لگنا۔ پوگونوفوبز کا یعنی جو داڑھیوں سے ڈرتے ہیں، ایک امریکی ہسپتال کی جانب سے کی جانے والی سائنسی تحقیق میں اس کے برعکس نتائج سامنے آئے ہیں۔جرنل آف ہاسپٹل انفیکشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں
داڑھی اور بغیر داڑھی کے ہسپتال کے 408 عملے کے ارکان کے چہروں کو پونچھ کر نمونے حاصل کیے گئے۔ہم جانتے ہیں کہ ہسپتال سے انفیکشن کی منتقلی ہسپتالوں میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ ہے۔ بہت سارے افراد ہسپتال جا کر ان بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں وہ ہسپتال جانے سے پہلے مبتلا نہیں ہوتے۔ ہاتھ، سفید کوٹ، ٹائیاں اور ساز و
سامان ہی اسکا سبب بن سکتا ہے، تو پھر داڑھیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ڈارھی کے بغیر عملے کے چہروں پر داڑھی والے عملے کے چہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ غیرپسندیدہ عناصر تھےمحققین کے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ ڈارھی کے بغیر عملے کے چہروں پر داڑھی والے عملے کے چہروں کے مقابلے میں مضر جراثیم کی تعداد زیادہ تھی۔اس مطالعے سے یہ واضح ہوا کہ داڑھی کے بغیر والے افراد پر میتھیسیلین ریزسٹنٹ سٹاف اوریوس (ایم آر ایس اے) نامی جراثیم داڑھی والوں کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ایم آر ایس اے عام طور پر ہسپتال سے منتقل ہونے والے انفیکشنوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ بہت سارے اینٹی بایوٹکس کے مقابلے میں قوت مدافعت رکھتا ہے۔محققین کے خیال میں شیو کرنے سے جلد پر خراشیں لگتی رہتی ہیں ’جس سے بیکٹریا کی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔‘شاید اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ داڑھیاں انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔اپنے اس تجسس کو جانچنے کے لیے ہم نے کچھ افراد کے چہرے پونچھ کر یونیورسٹی کالج لندن کے مائیکروبیالوجسٹ ڈاکٹر ایڈم رابرٹس کو بھیجے۔ڈاکٹر ایڈم داڑھیوں میں ایک سو سے زائد قسم کے بیکٹریا دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے جن میں ایک وہ قسم بھی شامل تھی جو عام طور پر چھوٹی آنت میں پائی جاتی ہے۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انسانی فضلے سے آیا ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے اور پریشان کن امر نہیں۔اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ داڑھی میں موجود بعض جراثیم دوسرے بیکٹریا کے دشمن نکلے۔ہم ان جراثیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں لیکن وہ ہمیں ایسا نہیں سمجھتے۔ بیکٹیریا اور پھپوند کی سطح پر وہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہتے ہیں، وہ کھانے اور جگہ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم رہتے ہیں۔ اور اس کام کے دوران وہ اینٹی بایوٹک کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔کیا ہمارے پراسرار جراثیم بھی کچھ ایسا ہی کر رہے ہیں، یعنی مضر بیکٹریا کو کسی زہر کے ذریعے مار دیتے ہیں؟ڈاکٹر ایڈم کے مطابق ایسا ممکن ہے۔ڈاکٹر ایڈم کے خیال میں یہ سٹیفائلوکوکس نامی جرثومے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اینٹی بایوٹکس کی مزاحمت والے انفیکشن سالانہ سات لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتے ہیں اور سنہ 2050 تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ڈاکٹر ایڈم کے مطابق گذشتہ 30 سالوں میں کوئی نئی اینٹی بایوٹک تیار نہیں کی گئی۔محققین کے خیال میں شیو کرنے سے جلد پر خراش لگتی ہے جس سے بیکٹریا کی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔داڑھی کے بغیر عملے کے چہروں پر داڑھی والوں کے مقابلے میں زیادہ ناپسندیدہ جراثیم پائے گئے۔