فیض آباد دھرنے کیخلاف آپریشن کا حصہ بننے والا ایک پولیس اہلکار سامنے آگیا

فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت کے دھرنے کے خلاف انتظامی طاقت کا استعمال کیاگیالیکن ایک دن کی ہنگامہ آرائی کے بعد بالآخر مذاکرات کا راستہ اپنایا گیا اور مسلح افواج کے ذمہ داران کی مداخلت کے بعد یہ مسئلہ حل ہوگیا اور دھرنا قائدین اپنا دھرنا ختم کرکے واپس اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ گئے تاہم اب اس آپریشن کا حصہ رہنے والا ایک پولیس اہلکار میدان میں آگیا ہے جس نے دھرناختم ہونے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکہ ” اپنی ٹانگ ٹوٹنے کا افسوس نہیں ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ پولیس کے ذمہ دار افسران کی مصلحتوں کی وجہ سے وردی کا تقدس بحال کرنے کا اہم موقع ضائع کر دیا گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے گروپوں کو تقویت بخشی گئی جو شدت پسندی پر یقین رکھتے ہیں۔اس کی دو ٹانگوں پر فریکچر آئے جبکہ مظاہرین کے حملوں میں اسلام آباد پولیس کے ایک اور کمانڈو اسرار تنولی کی آنکھ بھی ضائع ہو گئی“۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی ‘ کے مطابق پولیس کمانڈو نے اپنی نوکری سے ہاتھ بیٹھنے اور انکوائریوں کے خدشے کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ”وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور نوکری کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا، وہ ان کمانڈوز میں شامل تھا جن کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ مظاہرین پر نہ صرف دھاوا بولنا ہے بلکہ اندیشہ نقص امن کے تحت انھیں گرفتار بھی کرنا ہے،جب پولیس کے جوانوں نے چاروں اطراف سے مظاہرین کے خلاف کارروائی کر کے فیض آباد پل کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور مظاہرین کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا، لیکن پھر ناقص منصوبہ بندی اور بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے پسپائی ان فورسز کا مقدر بن گئی۔زخمی ہونے کے بارے میں اپنی روداد سناتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ جب مظاہرین کی ایک تازہ دم کمک نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تو آنسو گیس کا ایک شیل فیض آباد پل کی اس جانب پر آ گرا جہاں پر وہ اور دیگر کمانڈوز تعینات تھے،اس آنسو گیس شیل کا دھواں بڑا خطرناک تھا اور ابھی وہ اس دھویں کے اثرات سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ مظاہرین کے ایک جتھے نے ان پر پتھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کر دیا، اس حملے میں ان سمیت پانچ دوسرے اہلکار بھی زخمی ہو گئے،اس کے ساتھی، جو ا نھیں وہاں سے اٹھا کر لائے تھے، کہتے ہیں کہ اگر حملہ آورں کو ان کے ساتھی آواز نہ دیتے کہ دوسری طرف چلو تو شاید مظاہرین ان پولیس اہلکاروں کو ہلاک ہی کر دیتے“۔

رپورٹ کے مطابق اہلکار نے پولیس حکام کے رویے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ زخمی ہونے کے بعد بھی ان کے علاج معالجے کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور ایک دو دن ہسپتال میں رکھنے کے بعد ا±نھیں ایک ہفتے کی چھٹی پر گھر بھیج دیا گیا۔دوسری طرف اسلام آباد پولیس کا کمانڈو اسرار تنولی صوبہ خیبر پختونخوا کے قصبے اوگی کا رہائشی ہے، آنکھ ضائع ہونے کے بعد اس کا اسلام آباد میں علاج کروانے کی بجائے اسے آبائی علاقے بھیج دیا گیا ہے۔اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کو سب سے زیادہ چوٹیں پتھر لگنے کی وجہ سے آئیں حالانکہ ا نھوں اس سے بچاو کے لیے ہیلمٹ اور ٹانگ کے نیچے والے حصے میں گارڈ بھی پہن رکھے تھے، لیکن مظاہرین کے پاس گول پتھر تھے جس کی رفتار زمین پر لگنے کے بعد بڑھ جاتی تھی۔
راولپنڈی پولیس کے ان افسران میں سب انسپکٹر امانت اور محمد اسلم بھی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ راولپنڈی میں قتل کے مقدمات کی تفتیش میں ماہر مانے جاتے ہیں،پنجاب پولیس کی وردی میں ملبوس ان پولیس اہلکاروں کو دھرنے کے مظاہرین ڈسٹرکٹ ہسپتال سے اغوا کرکے اپنے ساتھ فیض آباد کے مقام پر لے گئے جہاں پر دھرنا دینے والوں کی قیادت موجود تھی جنہیں ایک خیمے میں بند کر دیا گیا اور ان کے بقول مظاہرین نے نہ صرف ا نھیں تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ جلانے کا بھی کہا گیا۔بعدازاں جب مظاہرین اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تو اس کے بعد مظاہرین نے ان پولیس افسران کو قریبی جھاڑیوں میں پھینک دیا۔

ان زخمی پولیس افسروں میں سے ایک سب انسپکٹر امانت سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ پولیس افسران کی مداخلت سے رہا ہوئے ہیں تو انھوں نے غصے سے بھرے ہوئے لہجے میں کہا کہ ’اگر افسران نے مداخلت کی ہوتی تو ہماری یہ حالت ہوتی۔‘ایک اور اہلکار تنویر احمد کا کہنا تھا کہ اس وقت اسے اپنی بےبسی پر رونا آیا جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ مظاہرین میں ان افراد کو بھی پیسے دیے گئے تھے جو پولیس اہلکاروں پر تشدد کرتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈی جی رینجرز پنجاب نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد مظاہرین کو ایک ایک ہزار روپے بھی دیے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں