خدا کو بھول گئے ہیں لوگ تلاشِ رزق میں، خیالِ رزق ہے رزاق کا خیال نہیں

ﷲ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فرمایا اوراور اپنے نظامِ قدرت سے اس کی تمام ترطبعی اور جسمانی حاجات وضروریات یعنی اشیائے خورد ونوش کا بھی بندوبست اور انتظام وانصرام فرمایا۔صرف حضرت انسان ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر بسنے والی ہر طرح کی مخلوقات کا خیال فرمایا۔یہ نزولِ باراں،زمین کی سرسبز شادابی، لہلہاتے ہوئے کھیت،رسیلے اور رنگیلے پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے سرسبزباغات،اونچے اونچے پہاڑگہرے اور عمیق دریا،رنگ برنگ پرندے اور زمین پر رینگنے اور چلنے والے چوپائے یہ سب کچھ اس کی خدمت گزاری ،ضیافتِ طبع اورسیر وتفریح کے لئے پیدا کئے گئے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو ۔تو اﷲ کے لئے جان بجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ۔اسی طرح اور ایک مقام پر فرمایا گیا:جس نے پیدا کیا تمارے لئے زمین میں جو کچھ ہے۔ان دونوں مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ واضح طور پرمعلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان وزمین کے جملہ لوازمات اور متنوع میواجات کو روزانہ انسان کی ضیافت ومیزبانی کے لئے پیدا فرمایا۔گویاں انسان کے لئے رزق کے وسیع وسائل وذرائع اور تمام بنیادی ضروریات وسہولیات کی چیزیں فراہم کیا ہے۔اب اس پر یہ منحصر ہے کہ کس طرح وہ انہیں اپنے تصرف واستعمال میں لائے اوران سے فائدہ اٹھائے۔

اسی طرح انسان کے لئے معاش ورزق کے وسیع وسائل وذرائع پیداکرکے اسے تلاشِ رزق کابھی حکم دیا گیا کہ وہ محنت ومزدوری کرکے کسبِ حلال اورمالِ طیب سے خود اپنی اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی پرورش کرے۔ہر جائزطریقے سے کماکر ان کا بہتر طورپرخیال رکھے۔یقیناًرزق اﷲ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کے لئے ایک عظیم نعمت ہے ۔اس کااپنے بندوں پر یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ جہاں اس نے انسانوں کے لئے رزق کے اسباب وذرائع مہیا کیا وہیں پہ رزقِ حرام سے بچنے کی تلقین اور کسبِ حلال کو اختیار کرنے کی تاکید فرمایا ہے ۔اسلام میں رزقِ حلال کو عبادتوں میں شمار کیا گیا ہے ۔چنانچہ رسول اﷲﷺنے کسبِ حلال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ حلال روزی فرض ( یعنی نماز اور روزہ وغیرہ) کے بعد فرض ہے‘‘۔ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا ’’ اپنے اہل و عیال کے لیے رزقِ حلال تلاش کرو یہ بھی جہاد فی سبیل اﷲ ہے‘‘ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا ’’ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کھانا نہیں ہے‘‘انسان کو چاہیے کہ وہ رزقِ حلال اور کسبِ معاش کے لئے تگ ودو اورتلاش وجستجو کرے اورروئے زمین پر اس کے فضل کو تلاش کرے ۔قرآن کریم میں انسان کوتلاشِ رزق کا حکم دیا گیا،چنانچہ مذکور ہے: ’’پھر جب نماز (نمازِ جمعہ)ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل تلاش کرو‘‘۔اس آیتِ مقدسہ میں صاف صاف یہ فرمادیا گیا کہ جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو فکرِ معاش اور تلاشِ رزق میں سرگرداں ہوجاؤ۔اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے آپ کو پورے طور پرمعاش ورزق کی تلاش میں لگادواور اﷲ تعالیٰ عبادت وبندگی سے روگردانی کرو ،اس کی نافرمانی اور ناشکری کا ارتکاب کروجیسا کہ انسانی معاشرے میں عام طور پر یہ دیکھا جارہاہے کہ انسان کسبِ معاش اور فکرِ دنیامیں اتنا مشغو ل ومصروف ہوچکا ہے کہ اسے اپنا مقصدِ تخلیق تک یاد نہ رہا ۔کھانے کمانے میں اس قدر مست وبے خود ہوچکا ہے کہ اسے اپنے رب کی عبادت وبندگی ،اس کے حقوق وفرائض اوراس سے کئے ہوئے وعدوں کا ہوش تک نہیں رہا ۔گویاں اس کا اعتماد وتوکل اﷲ خالق ورزاق پر سے اٹھ چکا ہے ۔ وہ یہ فراموش کربیٹھا ہے کہ جس خالق ومالک نے اسے نیست سے ہست اور عدم سے وجود بخشا اسی نے اسے زندہ رہنے کے لئے کھانا،پہننے کیلئے کپڑا اوررہنے کے لئے مکان دیا ہے ۔اسے نہیں بھول نہ چاہیے کہ جب وہ اس دنیا میں آیا تو برہنہ تھا ۔نہ اس کے بدن پر کپڑا تھا ،نہ رہنے کا کوئی مکان اور نہ کھانے کے لئے خورد ونوش کا کوئی انتظام تھا ۔اسی رزاق نے اسے زندگی کے گزر اوقات کے لئے یہ تمام چیزیں عطا فرمایا۔لیکن ا س کے باوجودحضرت انسان اپنے خالق ومالک کی عبادت کو پس پشت ڈال کر شب وروزتلاشِ رزق میں سرگرداں ہوچکا ہے۔اسے اپنے رب کا خیال تک نہ رہا ۔کسی شاعر نے اس حضرت انسان کا بہت صحیح نقش کھینچا ہے۔ ؂

خدا کو بھول گئے ہیں لوگ تلاشِ رزق میں
خیالِ رزق ہے رزاق کا خیال نہیں

یہ مذکورہ شعرموجودہ مسلمانوں کی صحیح عکاسی کررہاہے جس سے مسلمانوں کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کس قدر عبادت وریاضت اور حقوق اﷲ کو چھوڑکر طلبِ رزق اورفکرِمعاش میں لگ گئے ہیں ۔مسجدومحراب سے رشتہ منقطع کرکے کمپنیوں،ایجنسیوں ،کارخانوں،د کانوں اورنوکریوں سے رشتہ استوار کرچکے ہیں۔فکر ِ معا ش تو دامن گیررہتی ہے لیکن عبادت کاخیال اور خوفِ خدا کا پاس ولحاظ نہیں رہتاہے۔انہیں ہر وقت فکرِ معاش ستائے رہتی ہے ،اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے بلکہ ہمیشہ خیالِ رزق میں گم رہتے ہیں۔یہاں تک کہ تلاشِ رزق اور فکرِ معاش میں اپنے خالق ومالک کو ہی فراموش کر بیٹھے ہیں۔

حالاں کہ انہیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ رزق اور اس کے اسباب پیدا کرنے والی اﷲ کی ذات ہے ۔اس کی ایک صفت ’’رزاق‘‘بھی ہے جو اپنے جود وسخا سے جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ:’’اﷲ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے‘‘۔(سورہ بقرہ،آیت ۲۱۲)دوسرے مقام پر ہے: ’’اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اﷲ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے ، بیشک اﷲ اپنا کام پورا کرنے والا ہے بیشک اﷲ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے‘‘۔(سورہ طلاق،آیت ۳) اسی طرح اﷲ پر اعتماد وتوکل کرنے کے بارے میں حضرت فاروقِ اعظم سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:’’تم لوگ خدائے تعالیٰ پر توکل کلو جیسا کہ توکل کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کودیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہوکر واپس لوٹتے ہیں ‘‘۔(ترمذی)

اس تعلق سے ایک اور حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ:’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ پر توکل کرلے (اور اپنے تمام کاموں کو خدائے تعالیٰ کے سپرد کردے)تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے‘‘۔(ابنِ ماجہ)

متذکرہ بالا آیات واحادیث مقدسہ سے یہ بات صریح طور پر معلوم ہوگئی کہ جو بندہ اپنے رب پر صدقِ دل،پختہ یقین اور کامل طور سے اعتماد وتوکل رکھتا ہے تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق کے وسائل واسباب پیدا فرمادیتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ اسی طرح حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ:

چنان پہن خوانِ کرم گسترد
کہ سیمرغ درقاف قسمت خورد

اس کی بخشش وعطا کا دسترخوان اس قدر وسیع بیچھا ہے کہ سیمرغ پرندہ کوہِ قاف میں اپنی قسمت کے مطابق رزق کھاتا ہے۔

اس مذکورہ شعرسے بھی یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ جو ذات سیمرغ پرندے کو کوہِ قاف میں رزق پہنچا سکتی ہے جہاں پر نہ پانی کا کوئی نام ونشان ہے نہ کوئی سبزہ دار کھیتیوں کا سراغ بلکہ بے آب وگیاہ صحرا ہے وہ اسے وہاں رزق پہنچاتا ہے تو کیا ایک انسان جس کے سر اشرف المخلوقات کا تاجِ زریں ہے ،وہ اسے انسانوں کی بستی اور سرسبز باغات میں رزق سے کیوں کر محروم رکھ سکتا ہے۔؟بلکہ اس کی رزاقیت والی ذات پرکامل طور پراعتماد وتوکل ،عزم ویقین اوراعتقاد وگمان رکھنا چاہئیے کہ وہ ذات جو زمین پر رینگنے والے کم تر جانوروں کو روزی دیتی ہے تو یقیناً اسے بھی دے گی۔لہذا بندۂ مومن کو چاہیے کہ اسے کتنے بھی سنگین اور بد تر حالات درپیش ہوں اپنے رب کے ذکر سے اعراض اور روگردانی نہ کرے ،بلکہ عبادتِ اِلٰہی اور خوفِ خدا وندی کواپنے اوپر لازم ضروری جانے ،اسے اپنی حیات وزیست کا نصب العین بنائے ۔اور اﷲ تعالیٰ کی ذات پر کامل طور پر اعتماد وبھروسہ کرے ،یقیناً رب تعالیٰ کی رحمت اس سے بہت زیادہ قریب ہوجائے گی اور اس کے لئے رزق کے وسیع وکشادہ دروازے کھل جائیں گے۔جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں