صرف دو روٹیوں کی طلب گار ہوں کیا وہ یہ دو روٹیاں دے سکتا ہے؟

بوٹا سنگھ، جالندھر کا ایک کسان تھا۔ برما کے محاذ کا یہ سپاہی انگریز کی جنگ لڑ کر وطن واپس لوٹا تو ہمیشہ سے اس کا راستہ تکتی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی تھیں۔ پوہ کا مہینہ آتا
تو سونے دالان میں جاڑوں کی دھوپ کے بدلتے رنگ بوٹا کو بہت اکیلا کر دیتے۔ اچھے کسان اور آزمودہ فوجی کی طرح اس نے سینتالیس کے ساون میں گھر بسانے کا ارادہ کر لیا تھا۔پنشن سے ملنے والی رقم میں کچھ جوڑ جمع باقی تھا کہ تقسیم ہو گئی اور ایک دن قافلے سے چھوٹی زینب بلوائیوں سے بھاگتی بھاگتی بوٹا سنگھ کے کھیت میں آ گئی۔ بوٹے نے بلوائیوں کو دھمکانے کی کوشش کی مگر ہوس کی ماری آنکھیں زینب کے آنسوؤں سے زیادہ اس سودے میں ملنے والے دام پہ تھیں۔ بوٹے نے دم کے دم میں فیصلہ کیا

اور زینب کے عوض بلوائیوں کو اپنی تمام جمع شدہ رقم دے دی۔ تقسیم ٹل گئی تو گاؤں کی روائت زندہ ہو گئی۔ بڑے بوڑھوں کو مذہب اور سماج یاد آ گیا۔ انہوں نے بوٹا سنگھ کو پنچائت میں طلب کیا اور بتایا کہ وہ زینب کو اپنے گھر نہیں رکھ سکتا۔ اس کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ زینب کو واپس کر دے یا پھر اس سے شادی کر لے۔ پوہ لگی نہیں تھی مگر بوٹا سنگھ کو آنگن پہلے جیسا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے سرحد پار جانے والے قافلے کا بندوبست کیا اور ایک مناسب لڑکے کو بھی تلاش کیا جو زینب کے ساتھ لاہور جا کر یا اس سے پہلے شادی کر لیتا۔ ایسے میں زینب کو بوٹا سنگھ کی دی گئی قربانی یاد آ گئی ۔

چلنے کا وقت آیا تو اس نے بوٹے سے پوچھا کہ وہ ساری زندگی صرف دو روٹیوں کی طلب گار رہے گی کیا وہ اسے یہ دو روٹیاں دے سکتا ہے؟ خالی گاڑی واپس چلی گئی اور سورج چڑھتے ہی بوٹا اور زینب نے شادی کر لی۔ اگلے سال ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام تنویر رکھا گیا۔ جب خون بہہ بہہ کر جم گیا تو سرکار بھی ہوش میں آئی۔ دونوں ملکوں نے اس وقت نیا قانون بنایا کہ دونوں اطراف کی خواتین واپس ہوں گی۔ بوٹا شہر میں تھا جب اس کے ایک بھتیجے نے جائداد کے لالچ میں پولیس والوں کو زینب کی مخبری کردی۔

وہ واپس پہنچا تو چارپائی کے نیچے زینب کی آگے پیچھے ہوئی جوتیاں پڑی تھیں اور کھلے صحن میں تنویر کور رو رہی تھی، ابھی پوہ لگنے میں کچھ دن تھے۔ گاؤں کے لوگوں سے پوچھ تاچھ کے بعد بوٹا سنگھ سیدھا دلی آ گیا۔ شاہدرہ سے کیس کٹوائے، جامع مسجد میں اسلام قبول کیا اور اپنا نیا نام جمیل احمد رکھا۔ اگلے چھ ماہ تک بوٹا سنگھ کیمپ کا چکر لگاتا اور جالیوں کے آر پار میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر باتیں کرتے۔ اس دوران بوٹا سنگھ پاکستانی ہائی کمشنر سے بھی ملا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔سرکار نے سختی سے قانون کی پابندی کا ٹھان رکھا تھا۔

پھر ایک صبح زینب کے گھر والوں کے ملنے کی خبر آئی۔ سارا دن دونوں میاں بیوی جالی کے جنگلے کے ساتھ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ بوٹا جب بھی اوپر دیکھتا اسے زینب کی بڑی بڑی آنکھیں خلاؤں میں گھورتی نطر آتیں اور جیسی کونجوں کی ایک قطار آسمان سے نکلتی ویسے ہی آنسوؤں کی ایک دھار اس کی آنکھوں سے نکل کر گود میں قطرہ قطرہ گرتی جاتی۔ گاؤں میں گزرا وقت کسی اور جنم کی کہانی محسوس ہوتا۔پاکستان جاتے وقت زینب بچی کے علاوہ بہت سے خاموش وعدے بھی بوٹا سنگھ کے حوالے کرگئی۔

بوٹا سنگھ نے مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان کی شہریت اختیار کرنے کی درخواست دی جو رد ہو گئی۔ اس نے ہندوستانی ہونے کے ناطے پاکستان کا ویزا مانگا جو نہیں ملا۔ مہر لگانے والے بابو نے اسے بہت سمجھایا کہ دونوں دیس نئے بن گئے ہیں وہ بھی نیا جیون شروع کرلے مگر بوٹا انہیں کیسے سمجھاتا کہ پنجاب کے دانے پانی میں کچھ ایسا ہے جو آ گے بڑھنے نہیں دیتا۔وہ تو برما کے محاذ پہ بھی اپنا جالندھر دل میں بھر کر لے گیا تھا، یہ تو پھر بھی ایک چھوٹی سی لکیر تھی۔ بوٹے کو کون بتاتا کہ لکیر تھی تو چھوٹی مگر اتنی گہری گڑی تھی

کہ نسل در نسل خون جوانیاں دینے کے باوجود اب تک پرانے کنوئیں ایسی اندھی تھی۔ جب کوئی قانونی طریقہ نہ چلا تو بوٹا سنگھ نے گاؤں کی زمین بیچی اور تنویر (جو اب سلطانہ تھی ) کی انگلی پکڑے غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کر کے پاکستان آ گیا ۔ اس دوران زینب کے گھر والے اسے، برکی کے پاس واقع اس کے گاؤں نورپور لے جا چکے تھے۔بوٹا سنگھ گاؤں پہنچا تو زینب کی شادی طے ہو چکی تھی ۔ اس کے گھر والوں نے بوٹا سنگھ کو مار پیٹ کے پولیس کے حوالے کر دیا۔ عدالت میں پیش ہونے پہ بوٹا سنگھ نے جج کو اپنی پوری کہانی سنائی

اور بتایا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اب وہ زینب کا شوہر ہے۔ عدالت نے شرط رکھی کہ اگر زینب اس کے حق میں بیان دے دے تو بوٹا سنگھ اس کو لے جا سکے گا۔ادھر زینب کے گھر والوں نے اس کو دھمکی دی کہ اگر ا س نے عدالت میں بوٹا سنگھ کے حق میں بیان دیا تو وہ اس کے ساتھ ساتھ ننھی سلطانہ کو بھی جان سے مار دیں گے۔ زینب عدالت میں پیش ہوئی تو کمرہ گواہوں ، ملزموں، عمر قیدوں اور الزامات سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ ایک طرف بوٹا سنگھ کی ملتجیانہ نگاہیں تھیں ، ایک طرف ماں کی گود میں آ نے کو بیتاب ، ہمکتی سلطانہ تھی اور ایک طرف زینب کے بپھرے ہوئے رشتہ دار تھے۔

جج کے بار بار پوچھنے پہ زینب نے بوٹا سنگھ کو پہچان تو لیا مگر اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔بوٹے کے آنسو اس کے چہرے کو تر کر رہے تھے جب اس نے شلوکے سے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور کہا کہ اب سلطانہ کو وہ رکھ لے۔ زینب نے ایک نظر اپنے بھائیوں پہ ڈالی جن کے سر نفرت سے ایک سمت سے دوسری سمت کو انکار کی صورت ہل رہے تھے۔ ماں کی مامتا نے بچی کے معصوم ذہن کو تعصب سے دور رکھنے کے لئے قربانی دی اور ایک بار پھر معذرت کر لی۔ عدالت سے نکلتے ہوئے بوٹا سنگھ کے دامن میں ٹوٹا ہوا دل اور گود میں روتی ہوئی بچی تھی۔

اسے یہ شہر ایک عجیب سی جگہ لگ رہا تھا۔لاہور، جہاں اس کی پلٹن میاں میر کی چھاؤنی کے پاس لگی تھی ، گم سلائی جیسا لاتعلق ہو چکا تھا۔ وہ جلد از جلد اس شہر سے بھاگ جانا چاہتا تھا مگر جاتا بھی تو کہاں۔گاؤں کی زمین تو وہ بیچ آیا تھا اور ویسے بھی ادھر چند قبروں کے سوا اور کیا بچا تھا۔ اتنے بھرے پرے شہر میں اس کو ایک ہی جگہ مناسب لگی سو وہ داتا صاحب آ گیا۔رات بھر بوٹا ان چوکیوں پہ آنسوؤں کی نیاز چڑھاتا رہا۔ پاس ایک ستون کے سہارے سلطانہ سو رہی تھی۔ اب جن گلیوں میں دیگوں کی دکانیں ، پرانے چھاپہ خانے ہیں اور اسلامی کتابیں اور موتیے کے ہار ملتے ہیں،

وہاں سے اس نے سلطانہ کے لئے نئے کپڑے اور نئے جوتے خریدے۔ بچی سمجھی کہ اب شائد ماں کے پاس ہی جانا ہو گا۔ دونوں باپ بیٹی شہر سے باہر جانے والے رستے پہ راوی پار کر کے مقبرے چلے گئے۔جہانگیر کی قبر کے چبوترے پہ چند بچوں نے ننھی سلطانہ کو دودھ پیتے دیکھا۔ اس کا باپ روتا جا رہا تھا اور ایک چٹھی لکھتا جاتا تھا۔ شاہدرہ سے گاڑی گزرتی تو سنگ تراشوں کے محلے کے بچے اس کے نیچے شاہ جارج کی شکل والا سکہ رکھ کے اسے مقناطیس بنانے کا سوچتے۔ ایسے ہی ایک بچہ اپنی بیوہ ماں سے سکہ لے کر کشمکش کے عالم میں پٹڑی کے پاس بیٹھا تھا۔

اس کے اندر ایک گومگوں کی کیفیت تھی، مجبور ماں نے بہت سوچ بچار کے بعد سکہ دیا تھا ۔غربت کی پکڑ سکہ سنبھال رکھنے کا کہہ رہی تھی اور بچپنے کی خواہش اسے مقناطیس کا یقین دلا رہی تھی۔ اتنی دیر میں گاڑی کی سیٹی سنائی دی اور بچے نے ایک اور دن سوچنے کا فیصلہ کیا۔ گاڑی پوری رفتار سے آ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سامنے سے ایک شخص نئے نویلے کپڑوں میں ملبوس بچی گود میں اٹھائے آ یا اور ایک دم ریل کے آگے آ گیا۔بچی تو معجزاتی طور پہ بچ گئی مگر

صبح مقبرے کی چوکی پہ بیٹھ کر خط لکھنے والا نہ بچ سکا۔ کئی فٹ دور گرے ہاتھ میں خون سے تر بتر ایک چٹھی تھی۔ شائد یہی وہ خط تھا جو بوٹا سنگھ نے لکھا تھا۔ ’’زینب ۔۔ آخر تم نے اپنے لوگوں کی بات مان ہی لی مگر اپنے ایسا تو نہیں کرتے۔ میں جا رہا ہوں ۔ میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے ہو سکے تو پوری کر دینا۔زندگی میں تو ہم ایک نہیں ہو سکے مگر میں چاہتا ہوں کہ مرنے کے بعد تمہارا ساتھ نصیب ہو۔ مجھے نور پور گاؤں میں دفن کرنا تاکہ کبھی آتے جاتے تم میری قبر پہ تھوڑی دیر رک سکو”۔ خط اتنا لمبا چوڑا نہیں تھا بس آخر میں لکھا تھا کہ وہ زینب کو معاف کرتا ہے۔۔۔۔۔

لاہور کے مزاج میں ایسی آتش بازیاں اس وقت بھی چھوٹتی تھیں سو شام سے پہلے سارے شہر میں بوٹا سنگھ مشہور ہو چکا تھا۔جب اس کی میت اسپتال لے جائی گئی تو لگا کہ پورا لاہور امڈ آیا ہے۔ مگر بوٹے کی آخری خواہش بھی پوری نہیں ہو سکی ۔ بائیس فروری ۱۹۵۷ کو جب میت گاؤں پہنچی تو نور پور والوں نے دو گز زمین دینے سے انکار کر دیا۔ شہر کی انتظامیہ نے محبت کرنے والوں کے ولولے دیکھے تو بوٹا سنگھ کو میانی صاحب میں دفن کیا جہاں اب بھی اس کی قبر پہ تازہ پھول ملتے ہیں۔ سلطانہ کو لاہور ہائی کورٹ کی ایک وکیل اپنے ساتھ بیٹی بنا کر لے گئی۔بہت دیر تک نورپور گاؤں میں اس واقعے کا ذکر کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا۔

خبر کی چاٹ لوگوں کو بہت آگے تک لے جاتی ہے سو ایک صحافی نے نورپور جا کر رہائش اختیار کی اور پھر ایک دن موقع ملنے پہ زینب سے پوچھ ہی لیا۔ زینب کی بڑی بڑی آنکھوں میں اب حلقے پڑ چکے تھے۔ پپڑی جمے ہونٹ ہلے اور آواز آئی۔ جب میں ادھر تھی تو ساری ساری رات بوٹا مجھے پنکھا جھلتا تھا، اب میرا شوہر مجھے مارتا بھی ہے اور طعنے بھی دیتا ہے، محبت مل جائے تو موت بھی سکون سے آتی ہے نہ ملے تو زندگی کا ایک ایک لمحہ مشکل ہو جاتا ہے۔بابا بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے سکہ گاڑی کے نیچے رکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ جو گاڑی بوٹا سنگھ کا بھلا نہ کر سکی وہ سکے کو مقناطیس کیا کرتی۔ گھر آ کر وہ سکہ انہوں نے چاچا کو دے دیا کہ شہر جانا ہوا تو انارکلی کے باہر سے میرے لئے کوئی کتاب لے آنا ۔ چاچا شام کو واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔

..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں