دست شناسی بھی ایک عجیب پُراسرار علم ہے.جس کو اس علم پر قدرت ہوجاتی ہے وہ لکیروں سے انسان کو اندر باہر سے پڑھ لیتا ہے لیکن ایسے لوگ اب بہت کم ہوتے ہیں جو درست پیشن گوئی کرسکتے ہوں .
مجھے کسی طور پر اس بات پر پورا یقین نہیں ہوپاتا کہ کوئی دست شناس ایسا علم بھی رکھ سکتا ہے کہ کسی انسان کی موت کا درست وقت بتادے.چند دن پہلے میں نے نیٹ پر ہی ایک ایساواقعہ پڑھا تھا جو کسی سلیم نے بیان کیا تھا .اللہ ہی جانتا ہے کہ اس میں کتنی سچائی ہے لیکن یہ واقعہ جیسا بھی ہے اسکو پڑھنے کے بعد میں کسی کوبھی اپنا ہاتھ دیکھانے کا مشورہ نہیں دوں گا کیونکہ سلیم کے مطابق یہ واقعہ اسکے ذہن پر بہت برے اثرات چھوڑ گیا ہے.ویسے دست شناسوں کو ہاتھ دیکھانے کے بعد انسان کوئی بری بات سن لے تو دل میں اسکا روگ پال لیتا ہے.بعض اوقات کسی غلط پیش گوئی کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کربیٹھتا ہے.مجھے اس بات کا تجربہ ہے کہ جن لوگوں کو ہاتھ دیکھانے کا شوق ہوتا ہے وہ زیادہ خراب ہوتے ہیں. سلیم کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ میں اپنے والد صاحب کے ایک دوست سے ملنے نتھیا گلی گیا. میرے ساتھ میرا ایک دوست حمید بھی تھا. والد صاحب کے یہ دوست ایک زبردست پامسٹ تھے اور ان کی اس معاملے میں بہت دور دور تک شہرت تھی. اس کے علاوہ ان کے کچھ اور بھی روحانی معاملات تھے جو وہ فی سبیل اللہ کرتے تھے.میرا دوست جو میرے ساتھ تھا ، اسے وہاں پر ہاتھ دکھانے والوں کا مجمع دیکھ کر اشتیاق ہوا کہ وہ بھی ان کو اپنا ہاتھ دکھائے. انھوں نے جب حمید کا ہاتھ دیکھا تو ان کے چہرے پہ حیرت کے آثار نظر آئے. انھوں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’بیٹا ! کیا آپ ذرا تھوڑی دیر کے لیے دوسرے کمرے میں جاؤ گے ؟‘‘ حمید کو یہ سن کر قدرے حیرت ہوئی خیر وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا، جو ساتھ ہی تھا. اس کے جانے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا’’ سلیم بیٹا! آپ کا یہ دوست کون ہے؟‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ وہ میرا بچپن کا دوست ہے اور ہمارے محلے میں رہتا ہے. ’’میری زندگی میں آج تک ایسا نہیں ہوا‘‘، انھوں نے مجھ سے کہا. ’’ایسی کون سی بات ہے جو آپ نے اس میں دیکھی ہے ؟ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کا ہاتھ دیکھنے کے بعد آپ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے تھے .‘‘ میں نے ان سے پوچھا. ’’یہ بات اپنے تک ہی رکھنا ، اسے نہیں بتانا کہ میں نے جو ہاتھ دیکھا وہ ایک زندہ آدمی کا ہاتھ نہیں تھا. میرے گزشتہ تجربے اور دست شناسی کے علم کے مطابق وہ آدمی دنیا سے جا چکا ہے. ‘‘ ابھی انھوں نے یہ الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ اندر سے شوروغوغہ بلند ہوا. ہم دونوں ادھر بھاگے تو پتہ چلا کہ میرے دوست حمید کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے. اسے دیکھتے ہی انھوں نے اپنے ایک ملازم کو پانی لانے کو کہا اور ہم سب لوگ جو کمرے میں موجود تھے انھیں کلمہ طیبہ پڑھنے کو کہا. یہ سارا منظر آج بھی میری آنکھوں کے آگے گھومتا ہے کہ کس طرح چند منٹ کے اندر میرا دوست ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا. بظاہر ایسا لگتا تھا کہ اسے بہت زبردست دل کا دورہ پڑا ہے جس سے وہ جانبر نہیں ہو سکا کیونکہ ہارٹ اٹیک کے بارے میں میری تھوڑی بہت معلومات تھیں. وہ منظر ، وہ واقعہ میں ساری عمر بھلانا بھی چاہوں تو شاید کبھی نہ بھلا سکوں.‘‘