عورت گھر میں اچھی لگتی ہے یا دفتر میں ؟

ایک عورت ہمیشہ گھر میں ہی اچھی لگتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک عام سوچ ہے اور اگردیکھا جائے تو یہ غلط بھی نہیں ہے۔ کہ کسی خاندان کیلئے پر سکون زندگی گزارنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے کہ عورت گھر میں رہ کر بچوں کی تعلیم و تربیت کرے اور شوہر کما کر گھریلو اخراجات پورے کرے ۔ اگر عورت گھر سے باہر نکلے گی تو نہ صرف اس کی لئے بلکہ بسا اوقات اس کے خاندان کیلئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

لیکن اب یہ نظریہ تبدیل ہو رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عورت کو بھی مرد کی طرح گھر سے باہر کام کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے خاندان کے روزمرہ اخراجات میں ہاتھ بٹا سکے۔

عورت کے گھر کے علاوہ گھر سے باہر دیگر نوعیت کے کام کرنے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح ذوق و شوق اور فکر و فہم کی حامل ہے۔ قدرت نے اسے بھی کام کرنے کی صلاحیت دی ہے جو بے کار نہیں ہے لہٰذا اسے کام میں لانا چاہیے۔بنیادی طور پر فطری استعداد فطری حق کی دلیل ہے کہ جب خلقت میں فطرت نے کسی کام کی استعداد رکھی ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اسے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا حق حاصل ہے اور اس کی صلاحیتوں کی راہ روکنا ظلم ہے۔

” عورت گھر میں اچھی لگتی ہے یا دفتر میں ” ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر ایک عرصے سے بحث ہو رہی ہے اور جس کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس بار “روزنامہ نئی بات خواتین میگزین” نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے اور اس پر مختلف طبقہ فکر کے100 افراد سے رائے لی گئی جس میں اکثریت نے یہ بات کہی کہ عورتوں کا گھروں سے باہر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ایسے افراد کی تعداد 90فیصد تھی لیکن جن میں سے40فیصد نے یہ بھی کہا کہ خواتین کو کس قسم کے کام کرنے چاہئیںاور کس قسم کے نہیں۔ جبکہ صرف 10فیصد نے اس بات کی پرزور تائید کی کہ عورت گھر کی زینت ہے اور اسے صرف گھر ہی سنبھالنا چاہیے۔

سروے میں شامل اگر مردوں کی رائے کو الگ کر کے دیکھا جائے تو 85فیصد نے کہا کہ عورتوں کے لیے گھر سے باہر ملازمت کرنے میں کوئی قباحت نہیں جبکہ 15فیصد نے اعتراض کیا۔ عورتوں کی کل تعداد میں سے جن میں ملازمت پیشہ خواتین کے علاوہ گھریلو عورتیں بھی شامل ہیں کی 100فیصد تعداد نے کہا کہ عورتوں کی دفتروں میںملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر عمرانہ بلوچ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کو خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ علم حاصل کریں کیونکہ انسان میں تحصیل علم کی صلاحیت موجود ہے چنانچہ کسی کو اس کی صلاحیت سے محروم رکھنا عدل کے خلاف ہے۔عورت میں سیکھنے اور سکھانے کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیںچنانچہ ان کو ان صلاحیتوں کے استعمال سے محروم رکھنا نہ صرف عورت بلکہ معاشرے کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔

ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی رانا مشہود احمد خان کا بھی اس سوال کے جواب بارے یہی کہنا ہے کہ اب وہ دور نہیں رہاکہ جب عورتوں کو گھروں میں بند کرکے رکھا جائے ۔ اب عورتوں کے بغیر کوئی بھی ادارہ ادوھورا سمجھا جاتاہے۔ انھوں نے کہا اب تو حکومتی ایوانوں میں بھی عورت کی شمولیت لازمی ہے کیونکہ وہ پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں۔ تو انھیں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ انھوں نے کہا عورتوں کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھانا اصل میں ملک کی ترقی کی رفتار کو روکنے کے مترادف ہے۔

جامع مسجد باغبانپورہ کے امام و خطیب مولانا محمد اقبال نے کہا کہ بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں یا مغرب کی سوچ سے متاثر ہیں انھوںنے یہ بات طے کر لی ہے کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ ان کی جاب اور کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتیں ہی نہیںکیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جو خواتین کوئی کام نہیں کرتیں وہ بد قسمتی سے اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباﺅ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ اب مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف لڑکیاں خود بلکہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو جاب کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔انھوں نے کہاکہ اگرچہ مسلم معاشرے میں خواتین کے گھروں سے باہر دفتروں میں کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن اس کی حدود و قیود مقرر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کیرئیر کی تلاش کو عورت کی زندگی کا اصل مقصد بنا دینے کی وجہ سے اب مسلم معاشرے میں بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں، خصوصاً اس کی وجہ سے خاندانی ڈھانچے پر نہایت ہی مہلک اثرات ہوئے ہےں اور شادی شدہ زندگی میں تناو پیدا ہورہا ہے، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں جس وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔

ریڈیو اور ٹی وی کی فنکارہ شمع علی کا کہنا ہے کہ عورت اور مرد کا معاشرے میں کردار کی جو نئی تعریف کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک خاتون چاہے وہ ماں ہو یا بیوی اسے اپنا کیرئیر جاری رکھنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ایک مرد کو شوہر یا باپ ہونے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا اب تو خواتین نہ صرف مختلف نوعیت کے کاروبار کر رہی ہیں بلکہ فوج اور پولیس جیسے اداروں میں بھی کام کر رہی ہیں کہ جو کبھی صرف مردوں کیلئے ہی مخصوص تھا ۔ انھوں نے کہا کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں عورت کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنا کیریئر رکھے۔ معاشرے میں ایک کامیاب عورت بھی وہی ہے کہ جو کامیاب معاش رکھتی ہو۔

خواتین کے حقوق سے متعلق کا م کرنے والی غیر سرکاری تنظیم SUNEHAکی سیکرٹری جنرل شمسہ کنول کا کہنا ہے کہ ہماری تنظیم خواتین کو مردوں کے برابر حقوق کی بات نہیں کرتی بلکہ ہم یہ بات کرتے ہیں کہ عورتوں سے اتنا ہی کام لیا جائے کہ جس کی وہ اہل ہےں۔انھوں نے بتایا کہ ایک خاتون جو شادی شدہ بھی ہے اور ملازمت بھی کرتی ہے اس کی زندگی کو کبھی دیکھا ہے۔ ایسی خواتین کا سارا دن ایک کام سے دوسرے کام کو کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ اپنی فیملی کے لیے ناشتہ تیار کرنا، شوہر اور بچوں کے لیے لنچ تیار کرنا، بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجنا، اپنی نوکری کے لیے جانا، دفتر میں پورا دن کام کرنا، پھر سکول سے بچوں کو لینے جانا، رات کا کھانا تیار کرنا، بچوں کا بستر تیار کرنااور اگلے دن کی تیاری کرنا۔ جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنا کوئی بھی کام بہتر طور پر نہیں کرپاتیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ خواتین جو دفتروں میں کام کرتی ہیں ان کی فیملی کو چاہیے وہ ان کا خصوصی خیال رکھیں۔

بینکر خاتون بلقیس جہاں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے معاشرے میں یہ رائے پیدا ہو چکی ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔انھوں نے کہا یہ بات غلط ہے کیونکہ کسی بھی گھریلو عورت کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ جتنی کسی ملازمت پیشہ عورت کی۔ کیونکہ اگر گھریلو عورتیں نہ ہوں تو خاندان نہیں پنپ سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایسی عورت کہ جس کی طلاق، بیوگی یا خاوند کی بیماری و معذوری وغیرہ کی وجہ سے ذریعہ معاش نہ رہا ہو تو اس کو روزگار کے مواقع ڈھونڈنا ہی پڑتے ہیں کیونکہ بصورت دیگر اس کے خاندان کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔

دینی مدرسے کی تعلیم یافتہ بشریٰ حمید کا کہنا ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے چنانچہ جن معاملات میں مرد اور عورت کی فطری صلاحتیں ایک جیسی ہیں، ان معاملات میںاسلام نے ان پر فرض بھی ایک جیسے عائد کیے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ۔ تاہم جہاں فطرت میں فرق پایا جاتا ہے تو وہاں فرائض بھی مختلف عائد ہوتے ہیں، اس لیے خاونداور باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرے اور مالی طورپر ان کی کفالت کرے۔ جبکہ عورت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال کرے، ان کی فلاح وبہبود کا خیال رکھے اور اپنے بچوں کی پرورش اسلامی تہذیب کے مطابق کرے۔

ایک گھریلو خاتون سلمیٰ احمد کا کہنا ہے کہ اسلام میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک عورت کوئی پیشہ اختیار کرسکتی ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ ماں اور بیوی جیسے اپنے بنیادی فرائض کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔ تاہم اسلام خواتین کو چند مخصوص پیشے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتاہے ۔ جیسے حکمرانی کا عہدہ ۔یہ اس وجہ سے نہیں کہ اسلامی معاشرے میں عورت مرد سے کمتر ہے، بلکہ اس کی ممانت کے خاص دلائل ہیں۔ اسلام میں حکومت کرنا کوئی عزت یا اعلیٰ مرتبہ کی چیز نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ ذمہ داری، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور ایسا کام ہے جس کا محاسبہ سے تعلق ہے اور عورت محاسبہ بہتر انداز میں نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے اندر اللہ تعالی نے ممتا جیساہمدردی کا لافانی جذبہ دیا ہوا ہے۔ دوسرے کوئی بھی ایسا کام جس میں عورت کی نسوانیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے جیسے ماڈلنگ اورتشہیر کاکام وغیرہ۔

“عورت گھر میں اچھی لگتی ہے یا دفتر میں ” کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی یہ سوچ کہ کامیاب کیرئیر کی حامل خاتون ہی ”کامیاب عورت“ ہوتی ہے غلط ہے۔ وہ خاتون جو کاروبار کرتی ہے، ڈاکٹر ہے، وکیل ہے ، وہ معاشی طور پر تو یقیناً کامیاب عورت ہی کہلائے گی مگر شاید وہ گھریلو زندگی جو عورت کا اصل مقصد حیات ہے میں ناکام ہو جائے۔ اس کے برعکس وہ عورت جو ایک گھریلو ماں یا بیوی ہے اور معاشرے کی ترقی میںمعاشی طور کوئی حصہ نہیں ڈالتی لیکن وہ مستقبل کے معماروں کی تربیت کر کے اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالتی ہے جو یقیناً ملازمت پیشہ کے حصہ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں