ایک تپتے ہوئے صحرا میں ایک تنِ تنہا درخت تھا جو صحرا میں آگ برساتی دھوپ کے باوجود اپنی زندگی کے ایام بخوبی پورے کر رہا تھا۔ صحرا میں اس درخت اور تپتی ہوئی ریت کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔
ایک دن ایک عقاب اس درخت کی ایک شاخ پر آکر بیٹھ گیا۔وہ درخت کو اتنے بڑے صحرا میں اکیلادیکھ کر حیرت کا شکار ہوا کہ اس اکیلے درخت کا یہاں کیا کام۔۔
چنانچہ اس نے درخت سے سوال کیا، کہ تمہیں اس دہکتی ریت پررہنے میں کیا دلچسپی ہے؟یہاں تمہاری ضرورت کس کو ہے؟ درخت نے جواب دیا:تمہیں ضرورت ہے میری۔۔عقاب نے حیران ہو کر کہا مجھے بھلا تمہاری کیا ضرورت؟؟درخت نے کہا کہ اگر میں یہاں نہ ہوتا تو تم میری شاخوں پر بیٹھنے کے بجائے گرم ریت پر بیٹھتے تو زیادہ دیر زندہ نہ رہ پاتے۔ اور اس صحرا میں تم بھی تو اکیلے ہو۔یہاں تمہاری ضرورت کس کو ہے؟
میری شاخوں پر بیٹھ کر یہ سوچ رہے ہو کہ میری ضرورت کس کو ہے؟عقاب کو درخت کی بات درست معلوم ہوئی اور پھر اس نے سوچا کہ اگر یہ درخت یہاں نہ ہوتا تو میں اکیلا رہ جاتا اور مجھے صحرا کی گرم ریت پر بیٹھنا پڑتا۔