بیسویں صدی کا آغاز وہ وقت تھا جب دنیا کی دولت کچھ کھرب پتیوں کے پاس جمع ہوگئی تھی، تاہم بعد ازاں اس صورتحال میں کمی واقع ہوئی اور دولت کے سفر کا رخ کسی حد تک غریبوں کی طرف بھی ہوا۔ اب ایک بار پھر وہی کام ہو گیا ہے، گویا دنیا 100سال پیچھے چلی گئی ہے۔ اس وقت بھی دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے باعث عالمی دولت کا بہت بڑا حصہ چند کھرب پتیوں کے پاس جمع ہو چکا ہے۔
پاسپورٹس کی نئی بین الاقوامی رینکنگ جاری، پاکستانی پاسپورٹ کہاں تک جا پہنچا؟ سال کی سب سے افسوسناک خبر آگئی
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 1ہزار 542کھرب پتی ہیں جن کی مجموعی دولت 6ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جو برطانیہ کے جی ڈی پی سے دو گنا زیادہ ہے۔ ان میں سے 145کھرب پتی ایسے ہیں جن کی دولت ڈالرز میں گزشتہ سال سے 9صفر کے ہندسے میں داخل ہو چکی ہے۔ یعنی ان 145افراد میں سے ہر ایک کے پاس انفرادی طور پر100کھرب روپے سے زیادہ دولت جمع ہو چکی ہے۔
گلوبل الٹراہائی نیٹ ورتھ کے سربراہ جوزف سٹیڈلر کا کہنا ہے کہ ”میرے کھرب پتی کلائنٹ بھی اس بات پر متفکر نظر آتے ہیں۔ انہیں تحفظات لاحق ہیں کہ دولت کی یہ غیرمنصفانہ تقسیم غریبوں کو ان کے خلاف کسی شدید ردعمل پر مجبور کر دے گی۔“ سٹیڈلر کے مطابق اس وقت چند امراءکی طرف دولت کا ارتکاز 1905ءکی شرح پر پہنچ چکا ہے جو واقعی تشویشناک صورتحال ہے۔گزشتہ دو سال سے ہم اس صورتحال کے عروج کو پہنچ چکے ہیں۔ اس مسئلے کی وجہ سود پر سود لاگو ہونا ہے کیونکہ اس سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا ہے کیونکہ غریب کو امیر کی رقم سے حاصل کردہ قرض پر لاگو سود پر بھی سود دینا پڑتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند افراد کے ہاتھوں میں اتنی رقم جمع ہونے پر معاشرہ کب ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اس ردعمل کی شدت کیا ہو گی۔“