حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ”بلیا” اور ان کے والد کا نام ”ملکان” ہے. ”بلیا” سریانی زبان کا لفظ ہے.
عربی زبان میں اس کا ترجمہ ”احمد” ہے. ”خضر” ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں. خَضِر، خَضْر، خِضْر. ”خضر” کے معنی سبز چیز کے ہیں. یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ”خضر” کہنے لگے.ابوالعباس بلیابن ملکان یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے. حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں. یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں .تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں. (صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے.کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے. لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں. بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے.تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے.تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں
گے.امام بدر الدین عینیصاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذ ہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی تھے .اور زندہ ہیں . (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی .کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)خدمت بحر(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) ا ِنہیں سے متعلق(یعنی انہیں کے سپرد ) ہے اوراِلیاس علیہ السلام ” بَرّ ”(خشکی) میں ہیں.(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاءالمعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)اسی طرح تفسیر خازن میں ہے کہ .اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں . شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں . یہ بھی اسی میں منقول ہے کہحضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا.اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں. اس لئے یہ صحابی بھی ہیں. (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے.اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی .کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے .یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی . (تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے.آب حیات کیحقیقت:آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے. بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے . کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں.ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے.جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے.حضرت ذوالقرنین نے
پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سےایک شخص چشمہ ء حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی. اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا. آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے. اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہانہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے. جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے. وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی. ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا. یہ قوم ”ناسک”کہلاتی تھی. حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کےلشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں. تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا. چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے.اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ،اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں . اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا. واللہ تعالٰی اعلم .
..