زندگی اور موت کا سفر دکھنے میں تو کئی سالوں پر محیط نظر آتا ہے مگر اپنی ہی زندگی پر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے جیسے ابھی کل ہی کی تو بات تھی ۔ اپنا بچپن اور جوانی اس قدر تیزی سے بیتتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جیسے ہوا کا جھونکا ہو یا بجلی کی کوند کہ بس پلک جھپکی نہیں اور وقت کو گھوڑا پر لگائے اُڑ گیا ۔ زندگی اس مالک کی دین ہے جس نے واضح احکامات دیےاور بتا دیا کہ یہ راستہ صحیح ہے اور یہ غلط ۔ غلط کریںگے تو جہنم آپ کا مقدر ہوگی اورصحیح کریں گے تو جنت کے حقدار ٹھہریں گے ۔اللہ رب العزت خالق کائنات ہیں اور اور یہ ان کی قدرت ہے کہ بس ’’کُن‘‘ کہتے ہیں اور کام ہو جاتا ہے ۔ یہ بھی برحق ہے کہ وہ اللہ کو اپنی مخلوق سے اس قدر پیار ہے کہ وہ ہمیں سب کچھ بتا دینے کے باوجود ہمیں سدھارنے کیلئے اپنی نشانیاں دکھاتے رہتے ہیں ۔ ہم اپنے قارئین کی نذر ایک ایسا ہی واقعہ پیش کرنے جا رہے ہیں ۔پاکستان کی معروف رائٹر فائزہ نذیر ہ احمد اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتی ہیں کہ :انسانی زندگی مختلف واقعات کا مرقع ہے۔ روزمرہ زندگی کے واقعات دلچسپ ، عبرت ناک اور سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔درجِ ذیل چند دلچسپ واقعات قارئین کی توجہ کیلئے پیشِ خدمت ہیں تا کہ معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اصلاح کا باعث بھی بن سکیں۔ پہلے دو واقعات پاکستان کی دو الگ الگ شخصیات کی وصیتوں سے متعلق ہیں جو پوری نہ ہو سکیں مگران دونوں کا انجام کتنا مختلف اورباعثِ عبرت ہوا ۔قارئین ان دونوں واقعات کو پڑھ کر جو بھی نتیجہ اخذ کریں لیکن قدرت کے رنگوں پر حیران ضرور ہوں گے ۔
وصیتیں جو پوری نہ ہو سکیں دنیا کے کسی بھی شہ سوار سے شکست نہ کھانے والا کوہِ گراں رستم زماں گاماں پہلوان 23مئی 1960ء کی صبح موت سے شکست کھا گیا۔گاماں پہلوان کو رمضان المبارک میں سحری کے وقت ایک نہایت ہی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا تھا۔گاماں پہلوان کو ان ہی کے ذاتی تانگے پر میو ہسپتال لایا گیا۔یہ ایک بہت ہی زہریلا سانپ تھا اور کسی عام آدمی کو کاٹتا تو وہ فوراًہی لقمہ اجل بن جاتا مگر گاماں پہلوان اس سانپ کے زہر سے بھی بچ گئے ۔ صحت یاب ہونے کے بعد گاماں پہلوان نے کہا کہ سانپ نے دانت میرے پائوں میں گاڑھ دیئے لیکن میں نے پوری قوت سے اسے زمین پر رگڑا تویہ الگ ہوااورمجھے یوں لگا جیسے میں جلتے تنور میں گرگیا ہوں۔گاماں پہلوان اس واقعہ کے بارہ سال بعد طبعی موت کا شکار ہوئے ۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں پیر مکی کے مزار احاطہ میں دفن کیا جانا تھا ۔پیر مکی کے صحن میں قبر کی کھدوائی شروع ہوئی تو ایک مجاور خاتون نے ڈپٹی کمشنر کو دہائی دی کہ کچھ لوگ پیر مکی کے صحن میں زبردستی قبر بنانے جا رہے ہیںجنہیں ایسا کرنے سے روکا جائے ۔
طویل بحث کے بعد گاماں پہلوان کو جوگی خاندان کے ذاتی قبرستان میں دفن کردیا گیا اور یوں ان کی آخری خواہش جسے پورا کرنا دشمن بھی اپنا فرض سمجھتا ہے ، پوری نہ ہو سکی۔ ایک دوسرے واقعہ پر نظر دوڑائیں توعبرت کی ایک بدترین مثال ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ 29اگست 1952ء کو پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد فوت ہوئے ۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا لہٰذا انہیں امانتاًکراچی میں سپردِخاک کر دیا گیا۔کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ان کی لاش کو قبر سے نکال کر سعودی عرب روانہ کرنے لگے توایک ڈاکٹر، فوج کے کیپٹن، پولیس اہلکا ر، دوگورکن اور غلام محمد کے قریشی رشتہ دار قبرکشائی کے لیے قبر ستان پہنچے
۔گورکن نے جیسے ہی قبر کھودی اور تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی ،مگر وہ ہر وار سے بچ گیا ۔پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں،مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے سپرے کا چھڑکائوکر کے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔دو گھنٹے کے بعدجب دوبارہ قبرکھودی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہاتھا ۔چنانچہ باہمی صلاح مشورے کے بعد قبر کو بند کر دیا گیا اور اگلے دن ایک مشہور اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی: ’’سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جا ئی جاسکی اور وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی ۔