موت کے بعد کی زندگی ایک ایسا فلسفہ ہے جو جدید مغرب کے سائنسدانوں کو کبھی ہضم نہیں ہوا اور وہ اس کے متعلق طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جدید سائنس پر یقین رکھنے والے اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ جب دل و دماغ بے جان ہو جائیں تو اس کے بعد کیسی زندگی اور کون سا شعور ممکن ہے، مگر اب سائنس نے ہی انہیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
موت کے متعلق کی جانے والی ایک تازہ ترین تحقیق میں سائنسدانوں نے انکشاف کر دیا ہے کہ انسان کا جسم مردہ ہوجانے کے باوجود اس کے دماغ میں شعور کی لہریں باقی ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے وہ نا صرف یہ جانتا ہے کہ وہ مر چکا ہے بلکہ اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات کو بھی دیکھ اور سن رہا ہوتا ہے۔
دی انڈیپینڈنٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ جب مرنے والے کی موت کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کے عزیز و اقارب اس کے گرد جمع ہو کر رو پیٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوتا ہے۔
نیویارک یونیورسٹی لانگون سکول آف میڈیسن کے سائنسدان ڈاکٹر سیم پارنیا اور ان کی ٹیم نے اس تحقیق کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے والے ایسے مریضوں کا مشاہدہ کیا جو بعد میں دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ آئے۔ ان مریضوں میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ جب ان کی حرکت قلب بندہوچکی تھی تو بھی ان کا دماغ کام کررہا تھا اور انہیں معلوم ہورہا تھا کہ ان کے اردگرد کیا ہورہا ہے، حتیٰ کہ جب ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی تو وہ اسے بھی سن رہے تھے۔ ان افراد نے اپنی ’موت‘ کے بعد کے جو حالات بیان کئے، ان کی تصدیق ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں سے کی گئی تو سب باتیں درست پائی گئیں۔
سائنسی زبان میں دل کی حرکت بند ہو جانے اور دماغ کی جانب خون کا بہاﺅ رک جانے کو موت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے کسی بھی شخص کی موت کا وقت اس لمحے کو کہا جاتا ہے جب اس کے دل کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے۔ دل کی حرکت بند ہونے کے بعد دماغ کی جانب خون کا بہاﺅ بھی بند ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ دماغ بھی فوری طور پر کام بند کردیتا ہے۔ اس تحقیق کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ حرکت قلب بند ہوتے ہی دماغ بھی فوری طور پر کام کرنا بند کردیتا ہے بلکہ عین اس لمحے پر دماغ میں توانائی کا ایک فوارہ پھوٹتا ہے جو اس کے شعوری عمل کو جاری رکھنے کا سبب بنتا ہے۔
یہ توانائی کا فوارہ کیا ہے اور کیونکر موت کے وقت پھوٹتا ہے، اس کے بارے میں سائنسدانوں کے پاس تاحال کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ ان کا کہناہے کہ اس معاملے کی مزید تحقیق سے کئی اور حیرتناک انکشافات سامنے آنے کی امیدہے۔