میں کئی دن سے محسوس کر رہا تھا کوئی نادیدہ وجود ہے جوہر وقت میرے آس پاس رہتا ہے خاص کر تنہائی میں۔ چلتے ہوئے لگتا کوئی میرے ساتھ چل رہا ہے۔ اکثر میرے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ، مڑ کر دیکھتا تو کوئی نہ ہوتا۔ گھر سے باہر یہ احساس مزید قوی ہو جاتا۔ رات کے کسی پہر اچانک میری آنکھ کھل جاتی، کمرے سے باہر قدموں کی چاپ سنائی دیتی جیسے کوئی چل پھر رہا ہے۔ دروازہ کھول کر دیکھتا تو کوئی نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک اور تبدیلی بھی میں نے محسوس کی۔ ہر وقت میرے اردگرد گلاب کی مہک موجود رہا کرتی۔ آفس میں۔۔۔گھر میں۔۔۔راہ چلتے ہوئے مسلسل گلاب کی مسحور کن خوشبو میرے آس پاس رہا کرتی۔
یہ سب میرے ملتان سے واپس آنے کے بعد شروع ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ ہیڈ آفس نے مجھے ملتان بھیجا۔ وہاں کا ایک بھاری زمیندار ہمارے بینک کی برانچ میں اکاؤنٹ کھولنا چاہتا تھا لیکن اس کے کچھ تحفظات تھے۔ مجھے اسے مطمئن کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ضلع خانیوال کے نواح میں اس کی سینکڑوں ایکڑ اراضی تھی۔ دیہات کے لوگ علی الصبح جاگنے کے عادی ہوتے ہیں اسی لیے ان کا ہر کام بہت صبح شروع ہو جاتا ہے۔ مذکورہ زمیندار علی نواز ڈاھا نے صبح چھ بجے کا ٹائم دیا تھا۔ اسی لیے میں رات ہی کو روانہ ہوگیا۔ بس فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا ۔تقریباً سارے مسافر سو رہے تھے ۔کئی تو باقاعدہ خراٹے نشر کر رہے تھے۔ میری سیٹ ڈرائیور کے بالکل پیچھے تھی۔ دوران سفر مجھے نیند نہیں آتی لیکن نہ جانے اس دن کیسے مجھ پر غنودگی چھا گئی۔
اچانک ڈرائیور نے بریک لگائے ،سو میل فی گھنٹہ سے زیادہ تیز رفتار سے چلنے والی بس تقریباً الٹتے الٹتے بچی۔ میرا سر زور سے ڈرائیور کی سیٹ کی پشت سے ٹکرایا اور آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے۔ جو مسافر سو رہے تھے وہ سیٹوں سے نیچے آرہے۔ ٹائروں کے زمین کے ساتھ رگڑ کھانے کی زوردار آواز کے ساتھ ربڑ کے جلنے کی بو بھی محسوس ہوئی۔
مسافر ڈرائیور کو برا بھلا کہنے لگے۔ بس سڑک کے بیچوں بیچ آڑھی ترچھی رکی ہوئی تھی۔ رات کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا۔ بس کا انجن بند ہونے کی وجہ سے اس کی لائٹس بھی آف ہو چکی تھیں۔ ڈرائیور دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر رکھے یوں ساکت بیٹھا تھا جسے انسان نہیں پتھر کا مجسمہ ہو۔
’’کیا بات ہے استاد! نیند آگئی تھی۔۔۔؟‘‘ میرے ساتھ بیٹھا مسافر جو سیٹ سے لڑھک کے نیچے جا گرا تھا اٹھتے ہوئے بولا۔‘‘یا نشہ کررکھا ہے، ابھی بس الٹ جاتی تو ایک بھی زندہ نہ بچتا۔‘‘ اس نے ڈرائیور کو ڈانٹا۔
دیگر مسافربھی ڈرائیور کو کوس رہے تھے۔ لیکن وہ سب سے بے نیاز سڑک کوگھور رہا تھا۔ بس کا مالک پچھلی سیٹ پر سو رہا تھا۔ جلدی سے لنگڑاتا ہوا آگے آیا شاید اسے بھی چوٹ لگی تھی۔ اس نے جھک کر ڈرائیور کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ یوں اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ پھر خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’کیا بات ہے استاد کیا ہوا؟‘‘ اسنے ڈرائیور کی حالت کے پیش نظر آہستہ سے پوچھا۔
’’وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔وہاں سامنے ‘‘ ڈرائیور کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔
’’وہاں کیا۔۔۔شاید تجھے نیند آگئی ہوگی‘‘ اس نے ناگواری سے کہا ’’چل پیچھے آجا۔۔۔میں چلاتا ہوں۔ کئی بار کہا ہے نیند آئے تو بتا دیا کر شرمایا نہ کر۔۔۔چل پیچھے۔ اللہ کا شکر ہے بچت ہوگئی ورنہ تو نے تو مروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔‘‘
’’سائیں رمضان! میں اللہ پاک کی قسم کھاتا ہوں میں جاگ رہا تھا۔ نیند آئے تومیں کبھی ڈرائیورنگ سیٹ پر نہیں بیٹھتا۔ وہاں سڑک کے درمیان ایک جوان لڑکی کھڑی تھی۔ روشنی پڑی تو میں نے بریک لگائے۔ پر میرے خیال وہ۔۔۔وہ بس کے نیچے آگئی ہے۔‘‘ وہ بری طرح گھبرایا ہوا تھا۔
’’اللہ خیر ۔۔۔رمضان جلدی سے نیچے اتر گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی مسافر بھی اتر گئے۔ میں بھی نیچے آگیا۔ رات کی تاریکی میں کچھ دیکھنا مشکل تھا۔ سڑک کی دونوں طرف شاید کھیت تھے کیونکہ دور دور تک کسی عمارت کا ہیولہ تک نظر نہ آرہا تھا۔
اچانک مجھے گلاب کی خوشبو محسوس ہوئی میرا وجود جیسے معطر ہوگیا۔’’شاید قریب ہی گلاب کے پودوں کا فارم ہوگا۔‘‘ میرے دل میں خیال آیا۔
رمضان بس سے ٹارچ نکال لایا تھا اور اس کی روشنی سڑک پر ڈال رہا تھا۔ وہ تھوڑی دور چل کر گیا پھر واپس آگیا۔’’چلو۔۔۔چلو بیٹھوکچھ بھی نہیں ہوا‘‘ اس نے مسافروں سے کہا اورسب پر چڑھ گیا۔ جن میں سے کئی موقع سے فائدہ اٹھا کر رفع حاجت کے لیے سڑک کے کنارے بیٹھ گئے تھے۔ خیر ان کے آنے پر رمضان نے ’’چلو استاد‘‘ کا نعرہ لگایا، ڈرائیور نے بس سٹارٹ کی تو گھر رررگھرررکی آواز آئی لیکن انجن سٹارٹ نہ ہوا۔ کئی بار کوشش کرنے پر بھی نتیجہ وہی رہا۔ ’’ستیاناس۔۔۔‘‘ رمضان بڑبڑایا اور نچیے اتر کر اس نے بونٹ اٹھا دیا کافی دیر ٹارچ کی روشنی میں جائزہ لیتا رہا کچھ پرزوں کو اس نے ٹھوک بجا کر دیکھا۔’’چل استاد! سلف مار‘‘ اس کی چیختی آواز باہر سے سنائی دی۔ لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی۔‘‘ نیچے آکر خود ہی دیکھ اس مصیبت کو‘‘ اس نے ڈرائیور کی کھڑکی کے پاس آکر کہا۔ دسمبر کا مہینہ تھا یخ بستہ موسم میں ا س بے چارے کی قلفی جم گئی تھی۔
’’نن۔۔۔نہیں میں نیچے نہیں اتروں گا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ سڑک کے درمیان ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔ بریگ لگانے کے باوجود بس اس کے اوپر سے گزر گئی۔‘‘ اس کی گھبراہٹ کسی طور کم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ اس بار رمضان بھی پریشان ہوگیا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں بس کے آگے والے حصے کوغور سے دیکھا، جھک کر بمپر کو دیکھنے کے بعد اس کا منہ بن گیا۔‘‘تو پاگل تو نہیں ہوگیا استاد! اگرکوئی لڑکی بس سے ٹکرائی ہوتی تو اس کا خون بس کے باڈی پر ضرور لگتا سمجھ میں آئی بات۔۔۔چل نیچے اتر کر انجن دیکھ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔‘‘ اسنے ڈرائیور کو برا بھلا کہتے ہوئے نیچے آنے کو کہا۔ مسافروں کے اصرار پر وہ کپکپاتا ہوا نیچے اتر تو گیا لیکن خوفزدہ نظروں سے دائیں بائیں دیکھا رہا تھا جیسے اس لڑکی کی روح اسے بھی کھا جائے گی۔ مالک کے ڈانٹنے پر وہ چلا تو گیا تھا پر خوف کی اس حالت میں اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہتا تو ممکن نہ تھا۔
رمضان نے اس کی سیٹ سنبھال کر انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن لا حاصل۔ مسافر بھی پریشان ہوگئے۔ آدھی رات کا وقت ۔۔۔ویران سڑک۔۔۔کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ خاص کر وہ مسافرجن کے ساتھ خواتین تھیں بری طرح ڈرے ہوئے تھے۔
اچانک بجلی زور سے چمکی اورایک لمحے کے لیے آنکھوں کو خیرہ کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔’’مصیبت پر مصیبت‘‘ رمضان بڑبڑایا۔ ڈرائیور جلدی سے بھاگتا ہوا اندر آیا اور ڈرائیونگ سیٹ کے پاس سٹول نما سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کھڑکیاں دروازے بند ہونے کے باوجود یخ بستہ ہوا نے کپکپا کر رکھ دیا۔ بس خاص نئی اور آرام دہ تھی انجن کی خرابی سمجھ سے باہر تھی۔ شاید ڈیڈ بریک لگانے کی وجہ سے کوئی تار وغیرہ اکھڑ گئی تھی۔ میں نے جب سے سگریٹ نکال کر سلگایا جس سے سردی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔ بجلی کی کڑک سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہورہے تھے۔
’’وہ دیکھو۔۔۔سامنے‘‘ اچانک ڈرائیور زور سے چلایا۔ سب چونک گئے۔ وہ انگلی سے سامنے سڑک کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
’’کیا ہے سامنے۔۔۔کیا پاگل ہوگیا ہے؟‘‘ رمضان جو پہلے ہی جھنجھلایا ہواتھا ڈرائیور پر برس پڑا۔
’’میں سچ کہہ رہاہوں بجلی چمکی تو میں نے خود دیکھا سامنے وہی لڑکی کھڑی تھی،‘‘ وہ خوفزدہ ہو کر سیٹ سے اٹھ کر پیچھے آنے لگا۔
’’یہ نشہ تونہیں کرتا ۔۔۔؟‘‘ ایک مسافرنے ناگوار لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں بھائی! نشہ تو دور کی بات یہ تو سگریٹ اور چائے بھی نہیں پیتا۔ پانچ وقت مسجد میں نماز پڑھتا ہے۔‘‘ رمضان کہنے گا۔ ڈرائیور کو نہ جانے کیا دکھائی دیتا تھا کہ وہ بری طرح خوفزدہ ہو چکا تھا۔ جبکہ اصل خطرہ یہ تھا کہ سامنے یا پیچھے سے آنے والی کوئی اور گاڑی اندھیرے کی وجہ سے ہماری بس سے ٹکرا نہ جائے۔ میں نے اسکا اظہار رمضان سے کیا تو وہ ٹارچ جلا کر بس کی پچھلی سیٹ پر اس طرح رکھ آیا کہ اس کا رخ باہر کی طرف تھا۔ پیچھے کا مسئلہ تو حل ہوگیا پر سامنے سے ٹکرانے کا خدشہ ابھی بھی موجود تھا۔ (جاری ہے)
ایک مسافر کے بیگ میں ٹارچ تھی وہ آگے کی جانب لگا دی گئی۔ بارش کا زور ٹوٹنے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ بجلی چمکتی تو ایک لمحے کے لیے ہر طرف خیرہ کن روشنی چھا جاتی پھر گھور اندھیرا۔ بارش نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔
’’شام تک تو ایک بادل بھی نہ تھا۔۔۔اب بارش ہے جیسے آج ہی برسنا ہے اسے ‘‘ ایک مسافر کی بڑبڑاہٹ سنائی دی۔
’’اللہ کے کاموں میں کسے دخل ہے بھائی!۔۔۔بس دعاکرو‘‘ ایک بزرگ نے کہا ۔ پھر جس طرح اچانک بارش شروع ہوئی تھی اسی طرح ختم ہوگئی۔ رمضان جو ڈرائیورنگ سیٹ پربیٹھا ہوا تھا اس نے غیر ارادی طورپر سیلف میں چابی گھمائی تو انجن سٹارٹ ہوگیا۔ اسنے دو تین بار زور زور سے ریس دی جیسے انجن کبھی خراب ہوا ہی نہ ہو۔ سب نے شکر ادا کیا اس طرح تقریبا ایک گھنٹے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔ اب رمضان خود بس چلا رہا تھا۔ اس نے سپیڈ بڑھا دی تھی اس لیے بیس پچیس منٹ کی تاخیر سے بہرحال ہم ملتان پہنچ گئے۔
میں نے رکشہ پکڑی اور مطلوبہ پتے پر جا پہنچا۔ اللہ ناز ڈاھا بڑے تپاک سے ملا۔ پیٹ بھر کے ناشتہ کرنے کے بعد اسے سے معاملات طے پا گئے۔ وہ ہمارے بینک کی تحصیل برانچ میں اکاؤنٹ کھولنے پر آمادہ ہوگیا۔ گیارہ بجے کے قریب میں نے واپسی کی راہ لی۔ اس نے بہت کہا زیادہ تو نہیں تو ایک دودن ہی اسے میزبانی کا موقع دوں پر میں اس کا شکریہ ادا کرکے نکل آیا۔ دوسرے روز ہیڈ آفس رپورٹ کی تو چیئرمین بہت خوش ہوئے۔ ٹی اے ، ڈی اے کے علاوہ انہوں نے بھاری بونس بھی دیا۔ میرے کولیگز کا خیال تھا میرا پروموشن پکاہ ے۔ مذکورہ زمیندار کے اکاؤنٹ کھولنے سے بینک کو کافی فائدہ تھا۔ دوسرے دن چیئرمین نے مجھے آفس میں بلایا۔ میں خوش خوش گیا کہ ابھی پروموشن لیٹر لے کر آتا ہوں لیکن۔۔۔ہوا اسکے بالکل برعکس۔۔۔مجھے ٹرانفسرلیٹر ملا۔ چیئرمین کا خیال تھا میری صلاحیتوں کی وجہ سے جسطرح یہ اکھڑ شخص راغب ہوا۔ اسی طرح دیگر زمینداروں کو بھی میں اپنے بینک میں اکاؤنٹ کھولنے پرآمادہ کر سکتا ہوں۔ جائننگ کے لیے مجھے دو دن دیئے گئے ۔
اپنی داستان بیان کرنے سے پہلے میں آپ سے متعارف ہوجاؤں۔ میرا نام فاروق احمد خان ہے۔ ایک خوش حال اور خوش قسمت انسان ہوں۔ خوبصورت اور خوب سیرت بیوی صائمہ۔۔۔دو پیارے پیارے بچے سات سالہ احد اور پانچ سالہ مومنہ۔ اچھی ملازمت، شفیق ماں، محبت کرنے والی بہنیں اور بھائی۔ مجھے وہ سب کچھ میسر تھا جس کی ہر کسی کو خواہش ہوتی ہے۔ جب میں نے پروموشن اور ٹرانفسر کی خبر گھر آکر سنائی تو صائمہ جہاں میری پروموشن سے خوش ہوئی وہیں اس بات نے اسے افسردہ کر دیا کہ سب کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ بڑے بھائی نے کہا ۔
’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔۔۔؟ سرکاری ملازمت ہے کچھ عرصہ بعد پھر واپس ٹرانسفر ہو جائے گی۔‘‘ دو دن بعد میں جائننگ کے لیے روانہ ہوا۔ لاہور سے مذکورہ شہر چار پانچ گھنٹے کی مسافت پر تھا اس لیے میں فجر کی نماز کے بعد روانہ ہوا۔ یوں بھی رات کے سابقہ سفری تجربے نے مجھے محتاط کر دیا تھا ۔ تقریبا گیارہ بجے وہاں پہنچ گیا۔ چھوٹا سا شہر تھا تانگے والے نے لگ بھگ بیس منٹ مجھے لاری اڈہ سے بینک کے سامنے پہنچا دیا۔ سٹاف نے نہایت تپاک سے میرا استقبال کیا۔ سابق منیجر بزرگ آدمی تھے اور اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو رہے تھے۔ باقی عملہ بھی اچھے لوگوں پر مشتمل تھا۔ خاص کر کیشیئر عمران محمود تو مجھے بہت اچھا لگا۔ وہ عمر میں مجھ سے دو تین سال چھوٹا ہوگا ہنس مکھ اور ملنسار انسان تھا۔ ہم تھوری ہی دیر میں بے تکلف ہوگئے۔ دفتر میں میرا پہلا دن بہت اچھا گزرا۔ چھٹی کے بعد عمران اصرار کرکے اپنے گھر لے گیا۔ اس کی بیوی نازش تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے مزاج کی مالک تھی۔ عمران کے تین بچے تھے تینوں بیٹے۔ اس نے شاید دفتر سے نازش کو فون کر دیا تھا اس لیے دستر خوان پر کئی قسم کے کھانے موجود تھے۔ کھانا واقعی لذیذ تھا اس پر میاں بیوی کے خلوص نے اس کی لذت کو دوبالا کر دیا۔ کھانے کے دوران نازش مجھ سے میرے گھر والوں کے متعلق پوچھتی رہی۔ صائمہ اور بچوں کے آنے کا سن کر بہت خوش ہوئیں۔ کھانے اور چائے کے بعد اصل مقصد کی طرف آیا۔
’’عمران! مجھے کرائے پر ایک اچھا سا مکان چاہئے۔‘‘
’’خان بھائی! کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔کل ہی مکان کی تلاش شروع کر دیتے ہیں‘‘ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا’’خان بھائی! یہاں سے تھوڑی دور پروفیسر صاحب کا شاندار بنگلہ خالی تو ہے لیکن۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
’’لیکن کیا۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے ایک نظر نازش اور بچوں کو دیکھا پھر کہنے لگا’’اچھا کل جا کر دیکھ لیتے ہیں اگر آپ کو پسند آئے تو ان سے بات کر لیں گے۔‘‘
’’کل کیوں۔۔۔؟ آج ہی چلتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے خان بھائی!‘‘ وہ فوراً تیار ہوگیا۔
باہر آکر میں نے پوچھا’’تم کچھ کہتے کہتے رک گئے تھے کیا بات ہے؟‘‘
’’آئیے تھوڑی دیر پارک میں بیٹھتے ہیں میں آپ کو ساری بات بتا دیتا ہوں پھر جو آپ کا فیصلہ ہو۔‘‘ اس نے سامنے بنے پارک کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے اس کے پراسرار انداز پر حیرت تو ہوئی لیکن اس کے ساتھ چل پڑا۔ شام کا وقت تھا پارک میں اکا دکا لوگ موجود تھے۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر سونے کے بعد کہنے لگا۔
’’خان بھائی! اس بنگلے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آسیب زدہ ہے ۔۔۔وہاں جو بھی رہائش اختیار کرتا ہے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور پیش آتا ہے۔‘‘
’’عمران! تم بھی کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔ آجکل کے ترقی یافتہ دور میں ان باتوں پر کون یقین کرتا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں پر جو کچھ وہاں ظہور پذیر ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے تو۔۔۔‘‘ وہ اپنی بات مکمل نہ کر پایا تھا کہ میں نے ٹوک دیا۔
’’کیا ہوا تھا وہاں؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعدکہنے لگا۔
’’خان بھائی! زیادہ تو مجھے معلوم نہیں ہاں جو کچھ لوگوں سے سنا ہے وہ آپ کو بتا دیتا ہوں۔ پروفیسر صاحب کا پورا نام مرزا عظمت بیگ ہے لیکن پکارے وہ پروفیسر بیگ کے نام سے جاتے ہیں۔ ان کے دو ہی بچے تھے۔ مسعود اور نورین۔ مسعود، امریکہ تعلیم حاصل کرنے گیا پھر وہیں ملازمت اور شادی کرکے مستقل سیٹل ہوگیا۔ نورین۔۔۔سنا ہے نہایت حسین تھی۔ اس کی شادی اس کے خالہ زاد سرجن طاہر سے ہوئی جو خود بھی خوبرو جوان تھا۔ انہیں ’’چاند سورج کی جوڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بنگلہ جو ہم دیکھنے جا رہے ہیں پروفیسر صاحب نے بڑے چاؤ سے تعمیر کروا کے نورین کو جہیز میں دیا تھا۔ ڈاکٹر طاہر کا خیال تھا کہ کہ اس بنگلے میں اپنا چھوٹا سا ہسپتال بنا لیں گے لیکن افسوس زندگی نے ان کو مہلت نہ دی اور دونوں میاں بیوی اس دنیا سے چلے گئے۔‘‘
’’کیا ان کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا؟‘‘ میرے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’نہیں خان بھائی! میں شروع سے سارا واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ نورین اور طاہر شادی کے چند دن بعد اسی بنگلے میں شفٹ ہوگئے۔ ضرورت کی کونسی شے تھی جو پوفیسر صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کو نہ دی لیکن افسوس اسے استعمال کرنا اس کی قسمت میں نہ تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد نورین کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ طاہر ایک قابل ڈاکٹر تھا۔ اس لیے پہلے تو خود علاج کرتا رہا لیکن نورین کی حالت دن بدن بگڑتی چلی گئی۔ بہت علاج کروایا گیا۔ قابل سے قابل ڈاکٹرز نے چیک کیا لیکن اس کا مرض کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔ تھوڑے عرصہ بعد نورین سوکھ کر کانٹا ہوگئی۔ وہ ہر وقت بہکی بہکی باتیں کرتی۔ راتوں کو اٹھ زور زور سے چیختی۔
پروفیسر صاحب کے عزیز و اقارب نے ان کو مشورہ دیا۔ نورین کو کسی عامل یا پیر فقیر کو دکھائیں لیکن وہ ان باتوں کو خرافات سمجھتے تھے۔ نورین کی والدہ صابرہ بیگم نے جب بیٹی کی حالت دم بدم بگڑتے دیکھتی تو ایک مولوی صاحب کو بلوایا۔ جس نے نورین کو دیکھ کر کہا اس پرایک زبردست آسیب نے قبضہ جما رکھا ہے۔ لیکن یہ کام اس کے بس سے باہر ہے جو کسی عامل کو بلوا کر اس کا علاج کروائیں۔ اس کے بعد کئی عامل، پیر فقیر آئے لیکن کوئی دعا ، دعا کارگر نہ ہوئی۔ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ تھک ہار کر انہو نے علاج کروانا چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں بعد حیرت انگیز طور پر نورین کی حالت سنبھل گئی۔ سب نے سکھ کا سانس لیا۔ مسز بیگ نے بیٹی کی صحت یابی کی خوشی مکیں ایک چھوٹی سی پارٹی کا اہتمام کیا۔ جس میں ان کے قریبی عزیز مدعو تھے۔ رنگارنگ تقریب جاری تھی کہ یکایک موسم کے تیور بدلنا شروع ہوگئے۔ بارش اور آندھی کا طوفان اس طرح اچانک نازل ہوا کہ سب حیران رہ گئے۔ موسم کے باعث تقریب جلد ختم کر دی گئی۔ مہمان افراتفری میں رخصت ہوگئے۔ نورین نے اپنی والدہ سے کہا۔
’’امی جان! ہم بھی واپس گھر جا رہے ہیں۔‘‘
مسز بیگ نے بہت کہا ’’بیٹا! موسم خراب ہے صبح چلی جانا‘‘
وہ نہ مانی اور دونوں میاں بیوی واپس بنگلے پر آگئے۔ دوسرے دن مسز بیگ نے نورین کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا۔ گھنٹی بجتی رہی مگر کسی نے فون نہ اٹھایا۔ کئی مرتبہ فون کرنے پر یہی نتیجہ نکلا تو مسز بیگ کو فکر لاحق ہوئی۔
’’خدا خیر کرے نورین کے گھر سے کوئی فون اٹینڈ نہیں کر رہا میرے دل میں تو ہول اٹھ رہے ہیں چلیں ذرا ان کے گھر ہو آئیں‘‘ انہوں نے پروفیسر صاحب سے کہا۔
’’اللہ کی بندی! تم توخواہ مخواہ پریشان ہو جاتی ہو۔ رات دیر تک پارٹی میں جاگتے رہے ہیں اسی لیے سو رہے ہوں گے۔ اٹھیں گے تو خود ہی فون کر لیں گے۔‘‘ پروفیسر صاحب ہنس پڑے۔
لیکن ممتا کے ہاتھوں مجبور مسز بیگ بار بار فون کرتی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے روتے ہوئے پروفیسر صاحب سے نورین کے گھر چلنے کے لیے اصرار کیا۔۔۔بیوی کی پریشانی دیکھتے ہوئے وہ اس بار انکار نہ کر سکے۔ نورین کے گھر جا کر انہوں نے گھنٹی بجائے بار بار بجانے پر بھی دروازہ نہ کھلا تو پروفیسر صاحب بھی پریشان ہوگئے۔ سامنے توقیر صاحب(جن سے پروفیسر بیگ نے یہ پلاٹ خریدا تھا) کا بنگلہ تھا۔ انہوں نے جا کر انکو بتایا نورین کی بیماری کے متعلق وہ بھی جانتے تھے اس لیے جلدی سے اپنے بیٹے ساجد کو لے کر فوراً ان کیساتھ چل پڑے۔ انہوں نے بھی تین چار گھنٹی بجائے لیکن نتیجہ صفر رہا۔
’’انکل! اگرآپ اجازت دیں تو میں دیوار پھلانگ کر اندر سے گیٹ کھول دیتا ہوں۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’بیٹا! جو مناسب سمجھو کرو میرا تو دماغ کام نہیں کر رہا۔‘‘
مسز بیگ چپکے چپکے رو رہی تھی۔ ساجد نے دیوار پھلانگ کر جلدی سے گیٹ کھول دیا۔ سب اندر داخل ہوئے سامنے برآمدے کی لائٹ جل رہی تھی۔ پروفیسر صاحب نے اندر داخل ہوتے ہی آواز دی کوئی جواب نہ اایا۔ وہ جلدی سے نورین کی خواب گاہ کے دروازے پر پہنچے دروازہ کھٹکھٹایا جواب نہ پا کر اسے کھولنے کی کوشش کی تو وہ اندر سے بند تھا۔ مسز بیگ کی سسکیاں تیز ہوگئیں۔(جاری ہے)
’’ساجد! دروازہ توڑ دیتے ہیں‘‘ توقیر صاحب نے بیٹے سے کہا پھر دونوں نے کندھوں کی پے در پے ضربوں سے دروازہ توڑ دیا۔ پروفیسر صاحب اور ان کی بیگم جلدی سے اندر داخل ہوئے۔ توقیر صاحب اور ساجد نامحرم ہونے کی وجہ سے باہر ہی رک گئے۔ اگلے ہی لمحے مسز بیگ کی ہولناک چیخ سنائی دی اس کے بعد فوراً ہی کسی کے گرنے کا دھماکہ ہوا ۔دونوں باپ بیٹا جلدی سے اندر داخل ہوئے وہاں کا ہولناک منظردیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پروفیسر صاحب خوف اور صدمے سے گنگ کھڑے تھے۔ دل دہلا دینے والا منظر نظروں کے سامنے تھا۔ خوابگاہ کی دیواروں پر جگہ جگہ خون کے چھینٹے اور گوشت کے ننھے ننھے لوتھڑے چپکے ہوئے تھے۔ بیڈ کی چادر خون سے بھری ہوئی تھی اور سامنے ہی دو انسانی ڈھانچے پڑے تھے۔ یوں لگتا تھا کسی درندے نے دونوں کے جسموں کا سارا گوشت نوچ کر کھا لیا ہو۔ چہرے پر جگہ جگہ کسی جانورکے نوکیلے پنجوں کے نشانات تھے ۔ آنکھوں سے خون اور مواد بہہ کر چہرے پر جم چکا تھا۔ نورین کی لاش کوبلکہ ڈھانچہ کہنا ٹھیک ہوگا، طاہر کے ڈھانچے کے بالکل پاس پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں اور زبان باہر نکلی ہوئی تھیں۔ جسم کی بیشتر ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ صرف دونوں کے چہرے سلامت تھے اسی وجہ سے ان کی شناخت ہوسکی۔ کوئی بھی زیادہ دیر تک اس منظر کو نہ دیکھ سکا بلکہ توقیر صاحب کو تو ابکائی آگئی وہ جلدی سے کمرے سے باہر بھاگے۔
مسز بیگ قالین پر بے ہوش پڑی تھیں۔ ساجد نے پروفیسر صاحب کے ساتھ مل کر مسز بیگ کو اٹھایا اور انہیں لے کر باہر آگئے۔ بعد میں پولیس آئی بہت تفتیش ہوئی لیکن اس بھیانک واردات کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ یہ سب کچھ کس نے اور کیوں کیا؟ پولیس رپورٹ کے مطابق گھر سے کوئی قیمتی چیز غائب نہ تھی۔ حتیٰ کہ نورین کے وہ زیورات بھی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ملے جو وہ گزشتہ رات پارٹی میں پہنے ہوئے تھی۔ اس کے علاوہ نورین اور طاہر کے جسموں کی جو حالت تھی۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا جیسے یہ کسی غیر انسانی مخلوق کا کام ہے۔۔۔خان بھائی! یہ سب مجھے نورین کے ایک ہمسایہ لڑکے ماجد نے بتایا تھا وہ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لیے آتا تھا۔ پولیس نے بہت سر کھپایا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ان لوگوں کی کسی سے دشمنی نہ تھی۔ آخر تھک ہار کر پولیس نے کیس داخل دفتر کر دیا۔ اس سارے واقعے میں اہم بات یہ تھی کہ کمرہ ہر طرف سے بند تھا۔ پروفیسر صاحب کے سامنے ہی ساجد اور اس کے ابو نے دروازہ توڑا تھا۔ کھڑکیاں اندر سے بند تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے کہا یہ جنات کی کارستانی ہے‘‘ عمران نے تفصیل سے بتایا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے یہ سب کس نے کیا ہوگا؟‘‘
’’خان بھائی! اس واقعہ سے کچھ عرصہ قبل یہ بات کافی مشہور ہوئی تھی کہ ایک ڈاکو پولیس مقابلے میں زخمی ہو کر کسی طرح چھپتا چھپاتا ڈاکٹر طاہر کے پاس آیا اور اس سے درخواست کی کہ اس کے جسم سے گولی نکال دے۔ ڈاکٹر طاہر نے آپریشن کرکے اس کے جسم سے گولی تو نکال دی لیکن اسے بے ہوشی کی حالت میں پولیس کے حوالے کر دیا۔ ہو سکتا ہے یہ سب کچھ اسی نے کیا ہو۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے ڈاکو ان کو مار کر ان کا گوشت نوچ کر کھا گیا؟‘‘
’’نہیں خان بھائی! میں یہ تو نہیں کہہ رہاجو کچھ لوگوں نے کہا اس پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘
’’تم نے خود ہی تو بتایا ہے کہ جب پروفیسر صاحب نے نورین کے بیڈ روم کا دروازہ توڑا تو کھڑکیاں بدستور بند تھیں۔ پھر ڈاکو اپنا بدلہ کس طرح لے سکتا تھا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’خان صاحب ! آج کل تو چور ڈاکو بھی جدید سائنس سے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس ڈاکو نے بھی کوئی ایسا ہی طریقہ اپنایا ہو۔‘‘ اس نے کہا بات کیا تھی ایک معمہ تھا لیکن میں نے مزید بحث نہ کی۔
’’اب آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ عمران نے میری طرف دیکھا۔
’’وہی جو پہلے تھا۔۔۔بنگلہ اگر اچھا اور رہائش کے قابل ہے تو ابھی چل کر پروفیسر صاحب سے بات کر لیتے ہیں۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’ٹھیک ہے خان بھائی! جیسے آپ کی مرضی! اس نے کندے اچکائے۔ ہم پروفیسر صاحب سے ملے۔ بنگلہ دیکھا اور کرایے پر حاصل کرلیا انہوں نے بھی دبے دبے الفاظ میں وہی باتیں کیں جو عمران مجھے پہلے ہی بتا چکا تھا پر میں نے ’’جاہل لوگوں کی خرافات‘‘ کہہ کر انہیں مطمئن کر دیا۔
بنگلہ واقعی بہت خوبصورت تھا صرف مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ویران لگ رہا تھا۔ سامنے گیراج، ایک سائیڈ پر لان جو کبھی واقعی خوبصورت اور ہربھرا رہا ہوگا اب اجڑا پڑا تھا۔ لان کے بعد برآمدہ تھا دائیں طرف ڈرائنگ روم، درمیان میں ٹی وی لاؤنج اس کے بعد دو بیڈ رومز۔ لاؤنج سے ہی سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ اوپر والی منزل کا نقشہ بھی اسی جیسا تھا۔ گھر میں مکمل فرنیچر موجود تھا لیکن ہر چیز دھول میں اٹی پڑی تھی۔ دوسری طرف پھر ایک برآمدہ تھا اس کے بعد چھوٹا سا صحن، دائیں طرف کچن تھا۔
ایک ہفتے بعد ہم لوگ اس بنگلے میں شفٹ ہوچکے تھے۔ میں نے صائمہ کو بنگلے سے منسوب باتوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ بتایا کہ بلا وجہ پریشان ہوگی بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے خود بھی اس بات پر زیادہ یقینی نہ آیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے اس کی صفائی ستھرائی کروا دی تھی لان سے جھاڑجھنکار ختم ہونے کے بعد وہ بھی اچھا لگ رہا تھا۔ ابھی دو چھٹیاں باقی تھیں اس لئے دوسرے دن صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم سارے گھر میں گھوم پھر اس کا جائزہ لے رہے تھے ۔ گھومتے پھرتے ہم بیڈ روم میں آگئے۔ یہ وہی بیڈ روم تھا جس میں وہ ہولناک واردات ہوئی تھی۔ اچانک مجھے عجیب سی بے چینی سی بے چینی نے گھیر لیا۔ شاید اس واقعہ کا اثر تھا جو عمران نے مجھے سنایا تھا۔ ان باتوں کا میرے دماغ نے کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا تھا۔ حالانکہ میں ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال انسان ہوں۔ جنات کے وجود کو تسلیم تو کرتا ہوں کیونکہ ان کا ذکر ہمارے قرآن مجید میں موجود ہے۔ لیکن ایسی باتیں کہ جن فلاں پر عاشق ہوگیا۔ گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ان سب کو میں خرافات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا تھا لیکن ۔۔۔یہ سب کچھ جب ہمارے ساتھ ہوا تو اس نے مجھے ہر بات ماننے پرمجبور کر دیا۔ خیر آگے چل کر آپ کو سب باتوں کا پتا چل جائے گا۔
جب ہم بیڈ روم میں داخل ہوئے تو صائمہ کی خوشی دیدنی تھی۔ بیڈ روم واقعی خوبصورت تھا بڑی بڑی فرنچ ونڈوز، بیش قیمت ایرانی قالین، قیمتی فانوس غرض یہ کہ کمرے کی ہر چیز بہت نفیس اور خوبصورت تھی۔ سارا فرنیچر نہایت قیمتی لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ قالین اتنا دبیز اور نرم کہ پاؤں اس میں دھنس جاتے۔ اٹیچ باتھ، دراصل یہ دو کمرے تھے جن کے درمیان ایک دروازہ تھا ایک بڑا بیڈ روم اس کے ساتھ والا کمرہ ذرا چھوٹا لیکن وہ بھی خوبصورت فرنیچر سے مزین تھا۔
’’اس میں ہم دونوں اور ساتھ والے بیڈ روم میں بچے سوئیں گے۔‘‘ صائمہ نے فوراً فیصلہ سنا دیا۔
اچانک مومنہ نے ایک طرف دیکھ کر رونا شروع کر دیا پھر دوڑتی ہوئی جلدی سے صائمہ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔
’’ماما مجھے اٹھا لیں ‘‘ وہ بار بار کمرے کے ایک کونے کو دیکھتی اور رونے لگ جاتی۔ صائمہ اس کے اس طرح اچانک رونے سے پریشان ہوگئی۔
’’کیا بات ہے، کیوں رو رہی ہو؟‘‘ اس نے مومنہ کو اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
لیکن کچھ بتانے کے بجائے وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ صائمہ نے اس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا۔ وہ ماں کے کندھے سے لگ کر سسکیاں لینے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ چپ کر گئی تو صائمہ نے اسے نیچے اتار دیا وہ کھیلنے لگی۔ صائمہ اور میں سامان کی ترتیب کے بارے میں باتیں کرنے لگے اسے باغبانی کا بہت شوق تھا کہنے لگی۔
’’آپ مجھے کسی مالی کا انتظام کر دیں اور نرسری سے اچھے اچھے پودے لا دیں میں لان ٹھیک کروالوں‘‘ سارا دن ہم نے گھر کی سیٹنگ میں گزار دیا۔ نازش تھوڑی دیر بعد آگئی تھیں وہ بھی ہمارے ساتھ کام کرواتی رہیں ساتھ ساتھ اپنے مشوروں سے بھی نوازتی رہیں۔ دونوں کو کام کرتا چھوڑ کر میں مارکیٹ چلا گیا۔ میں چاہتا تھا مہینہ بھر کا راشن بے لے لوں اور کھانا بھی بازار سے لے آؤں۔ جب میں واپس آیا تو صائمہ سیٹنگ سے فارغ ہو چکی تھی۔
’’نازش بھابی تو گھر چلی گئی ہیں ان کے بچوں کا سکول سے آنے کا ٹائم ہوگیا تھا صائمہ نے میرے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے بتایا۔ کھانے اور چائے کے بعد میں نے صائمہ سے کہا۔
’’میں بینک کا ایک چکر لگا آؤں۔‘‘
’’جلدی آجائیے گا‘‘ صائمہ نے کہا۔ میں سر ہلا کر باہر نکل آیا۔ موسم اچھا تھا اس لئے میں پیدل ہی چل پڑا ۔بینک وہاں سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھا۔ عمران مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا’’خان صاحب ابھی میں آپ ہی کو یاد کر رہا تھا۔‘‘
’’کیوں خیریت؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آج رات کا کھانا آپ لوگ ہمارے ساتھ کھائیں۔‘‘
’’بھئی ابھی تو دوپہر کا کھانا کھا کر سیدھا یہیں آرہا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا کافی دیر تک ہم بینک اور یہاں کے کسٹمرز کے بارے میں باتیں کرتے رہے وہ یہاں کے لوگوں کے رویے اور عادات کے بارے میں مجھے بتاتا رہا۔ اگلے دن میں نے باقاعدہ ڈیوٹی جوائن کر لی۔ وقت پُر سکوں انداز میں گزر رہا تھا کہ ایک دن حسب معمول بینک سے واپس آیا تو صائمہ ڈرائنگ روم میں بیٹھی کچھ پریشان اور الجھی الجھی دکھائی دی۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگی۔
’’سمجھ میں نہیں آتا بچوں کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘ میں نے اطمینان کی سانس لی۔
’’صائمہ بچے تو شرارتیں کرتے ہی رہتے ہیں تم خواہ مخواہ پریشان ہو جاتی ہو۔‘‘
’’فاروق! یہ بات نہیں ۔۔۔ان کی شرارتیں تو مجھے بوریت سے بچائے رکھتی ہیں‘‘
’’پھر کیا بات ہے؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں بھی کیسی عجیب عورت ہوں آپ تھکے ہوئے آئے ہیں اور میں نے چائے تک کا نہیں پوچھا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگی تو میں نے اسے بازو سے پکڑ کر دوبارہ صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پہلے مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘
’’دو تین دن پہلے کی بات ہے دونوں بچے بیڈ روم میں کھیل رہے تھے میں کچن میں اپنا کام کر رہی تھی۔ اچانک مومنہ کے زور زور سے ہنسنے کی آواز آئی میں نے دونوں کے لیے دودھ بنایا اور انہں دینے کے لیے گئی تو مومنہ کہنے لگی۔
’’ماما! ابھی میں نے نہیں پینا میں آنٹی کے ساتھ کھیل رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کہ وہ کمرے میں ایک طرف دیکھنے لگی۔
’’آنٹی بال میری طرف پھینکیں‘‘ پھر حیرت سے کمرے میں چاروں طرف دیکھا’’آنٹی۔۔۔آپ کہاں چلی گئی ہیں؟‘‘
’’میں نے ادھر ادھر دیکھا کمرے میں بچوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ مومنہ حیران سی متلاشی نظروں سے چاروں طرف دیکھ کر پکار رہی تھی۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)