شہروں میں اونٹنی کا دودھ بیچنے والیاں ایسا خطرناک کام کررہی ہیں جو علم میں آجائے تو یقیناً آپ بچ سکتے ہیں

لاہور(حکیم محمد عثمان)دودھ کو طب اسلامی میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔زمانہ قدیم میں لوگ بھیڑ بکریوں اور اونٹنی کا دودھ پیتے اور توانائی کے قدرتی اضافے سے مالا مال ہوتے تھے ۔یہ کچا پیا جاتا اور ہضم بھی کیا جاتا تھا ۔اطبا نے خاص طور پر اونٹنی کے دودھ پر بہت تحقیق کی ہے ،یہ گائے اور بھینس سے زیادہ بہتر فیٹ اور پروٹین کا مآخذ ہے لہذا اطبا انسانی طبیعت اور مزاج کے مطابق ہی اسکا دودھ پینے کی ہدایت کرتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اونٹنی کا دودھ پینا ثواب ہے لیکن اسلام نے علاج اور احتیاط کی بھی حکمت عطا فرمائی ہے ۔ صحرائی اونٹنی اور شہری و مضافاتی اونٹنی کے دودھ میں اب خاصا فرق آچکا ہے۔صحرائی اونٹنی کی خوراک ایسی جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں جو اسکے دودھ کو بہت زیادہ شفا بخش بناتی ہیں۔جبکہ مضافاتی علاقوں میں پروان چڑھنے والی اونٹنیاں آلودہ چارہ کھا کر دودھ دیتی ہیں ۔آلودہ اور کیمیائی چارہ کھانے والے جانوروں پر یہ تحقیق سامنے آچکی ہے کہ ان کا گوشت اور دودھ انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔
ہمارے ہاں عالم یہ برپا ہے کہ لیکٹوز جیسی بیماری کی وجہ سے لوگ بھینس گائے کا دودھ ہضم نہیں کرسکتے ، نومولود بچوں کو بھی قدرتی دودھ کی بجائے ڈبوں پر منتقل کیا جاچکا ہے ،اسکی وجوہات میں اہم بات ناقص دودھ بھی ہے تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حالات ،کلچر اور بیماریوں کی وجہ سے شہروں میں رہنے والوں کو اونٹنی کا دودھ نہیں پینا چاہئے۔البتہ صحرائی باشندوں اور مشقت کرنے والے لوگ اونٹنی کادودھ پی سکتے ہیں یا جنہیں حکما تجویز کریں وہ اونٹنی کا دودھ پی سکتے ہیں ۔صحرائی اونٹنی فولاد اور بہترین کولیسٹرول کا خزانہ ہے اور یہ صحرائی نباتات کی وجہ سے ہے۔اونٹنی کا دودھ کو شوگر،خون کی افزائش،آٹزم ،اور امیون سسٹم کو بحال اور مضبوط کرتا ہے۔ ان دنوں شہروں میں ایسی خانہ بدوش عورتیں عام نظر آتی ہیں جو سڑکوں پر اونٹنیاں کھڑی کرکے ان کا تازہ دودھ بیچتی ہیں اور کسی قسم کی صفائی کا خیال بھی نہیں رکھتیں،بازاروں اور گلیوں میں آوازیں دے کر بھی وہ گھر گھر دودھ بیچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔تاہم جانوروں میں وائرس عام ہونے کے بعد اس بات کا خدشہ موجود رہتا ہے کہ نہ جانے کس اونٹنی کو ایسی بیماری ہو،اور اسکا دودھ انسانی جان کے لئے خطرہ بن جائے۔ ابھی تک ملک میں اونٹنی کے دودھ اور گوشت پر موئثر تحقیق نہیں ہوپارہی ۔لہذا مناسب یہی ہے کہ محکمہ لائیوسٹاک شہروں میں سرعام دودھ بیچنے والوں کو چیک اینڈ بیلنس نظام میں لیکر آئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں