لندن (ویب ڈیسک) مراکش ایسا اسلامی ملک ہے جہاں کئی علاقوں میں کنوارے پن کا ٹیسٹ ایک روایت ہے۔ مگر اب وہاں کی خواتین نے اس رسم کے خلاف ایک مہم شروع کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ ٹیسٹ ایک طرح کی جنسی زیادتی ہے اور جہالت کی انتہا ہے ۔مراکش کی ایک 24 سالہ لڑکی (م) شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی شادی
ہو جائے گی اور پھر کسی مرد کے ساتھ اس کا پہلی مرتبہ جنسی رابط ہو گا۔ (م) کو اس سے خوف آتا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی ہونے کے ناطے (م) کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایک دائی کے پاس جا کر اپنے کنوارے ہونے کی تصدیق کروائے۔ (م) کے مطابق یہ ٹیسٹ بربریت کی ایک مثال ہے، ’’انتہائی تکلیف دہ۔ اس سے ایک انسان اور ایک خاتون کے طور پر میرا وقار مجروع ہوا ہے۔‘‘ اس کے بقول مراکش کے دیہی علاقوں میں کنوارے پن کا ٹیسٹ ایک عام سی بات ہے۔ متعدد نوجوان لڑکیوں کو اس تکلیف دہ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ انکار پر تو زبردستی انہیں روایتی دائی کے پاس لایا جاتا ہے۔ ان دائیوں کے پاس اکثر طب کی تعلیم بھی نہیں ہوتی۔ اہم ترین بات صرف یہ ہے کہ متعلقہ لڑکی کے اہل خانہ کو دائی پر بھروسہ ہو۔کنوارے پن ی تصدیق کے ٹیسٹ کے بعد (م) ’’مائی وجائنا از مائن‘‘یعنی’’میری اندام نہانی میری ہے‘‘ نامی ایک تحریک میں شامل ہو گئیں۔ مریم کے بقول، ’’جنسی زیادتی کی بدترین شکل وہ ہوتی ہے، جب کسی نوجوان خاتون سے اس کی جنسی خود مختاری کا حق بھی چھین لیا جائے۔‘‘ مراکش کے مکناس نامی علاقہ میں ایک بزرگ خاتون رہتی ہیں۔ انہیں بہت ہی
فیض یاب سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خاتون یہ تصدیق کرتی ہیں کہ لڑکی ابھی تک کنواری ہے یا نہیں۔ اس مشہور اور معتبر خاتون نے بتایا، ’’ مجھ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ میرے پاس بہت سے خاندانوں کے راز ہیں۔ یہ میرے دل میں ہی دفن رہیں گے کیونکہ اس کا تعلق کنوارے پن سے ہے یعنی ’غیرت‘ سے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا طریقہ کار نہ تو تکلیف دہ ہے اور نہ ہی قدیم۔ وہ قدرتی اشیاء استعمال کرتی ہیں تاکہ کوئی نازک حصہ زخمی نہ ہو، ’’پردہ بکارت کی موجودگی کی تصدیق کے لیے وہ انڈوں کا استعمال کرتی ہیں۔ اکثر لڑکیاں اپنے ہاتھوں سے یہ عمل کرتی ہیں۔‘‘