ان 3پاکستانی نوجوانوں نے مل کر ایسا بے مثال کام شروع کردیا کہ جان کر ہر پاکستانی اُٹھ کر انہیں سلیوٹ مارے گا، پاکستانیوں کا مسئلہ تو حل کیا ہی اپنی آخرت بھی سنوارلی

نفسا نفسی کے اس دور میں کسے فرصت ہے کہ دوسروں کی فکر کرے۔ حالات یہ ہیں کہ کوئی کسی غریب کو ایک وقت کا کھانا کھلانے کو تیار نہیں، لیکن خدا بھلا کرے ان نیک بندوں کا جو مادہ پرستی کے اس دور میں بھی غریبوں کا بھلا سوچتے ہیں۔ ایک ایسی ہی قابل تحسین مثال وہ تین پاکستانی نوجوان ہیں جنہوں نے سینکڑوں غریب خاندانوں کو ہر روز کھانا کھلانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے، اور اپنا دن رات ایک کر کے یہ ذمہ داری بطریق احسن پوری کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق 2015میں تین دوستوں حذیفہ، قاسم جاوید اور موسی عامر نے پاکستان کے پہلے ’فوڈ ریکوری و ڈسٹریبیوشن‘ ادارے ’رزق‘ کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد ان غریبوں کی مدد کرنا تھا جو تنگدستی کے باعث دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتے۔ اب ان نوجوانوں کے ساتھ 720 رضاکار کام کر رہے ہیں اور وہ اب تک 30 ہزار کلوگرام سے زائد کھانا جمع کر کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کھانے تقسیم کر چکے ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ان طلباءنے 85 ہزار ڈالر (تقریبا 85 لاکھ پاکستانی روپے ) مالیت کے کھانے سے ہر روز 200 گھرانوں کی ضرورت پوری کی ہے۔
یہ ادارہ انتہائی سستے یا مفت کھانے کی سہولت فراہم کرنے سے قبل ضرورت مند گھرانوں کی معلومات حاصل کرتا ہے۔ عام طور پر انتہائی غریب علاقوں میں بسنے والے ضرورت مند لوگ ادارے کے فوڈ بینک میں اپنی رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ ادارہ ان کی دی گئی معلومات کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور اس کے بعد کھانے کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔
اس مقصد کے لئے لاہور اور اسلام میں ایک فوڈ بینک قائم کیا گیا ہے اور اگلے پانچ سال کے دوران مختلف شہروں میں 50 مزید فوڈ بینک قائم کئے جائیں گے۔ ادارے کے پاس مخصوص رکشے ہیں جو شہر بھر سے مخصوص فیس کے عوض اضافی کھانا اکٹھا کر کے فوڈ بینک میں لاتے ہیں۔ اس کھانے کی کوالٹی چیک کی جاتی ہے اور پھر اسے ڈبوں میں بند کر کے ضرورت مند خاندانوں کو انتہائی معمولی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ جو خاندان پانچ یا دس روپے دینے کی بھی سکت نہیں رکھتے انہیں کھانا مفت دیا جاتا ہے۔ آج یہ شاندار سروس سینکڑوں خاندانوں کو میسر ہے اور آنے والے چند سالوں میں اس کا دائرہ ہزاروں خاندانوں تک وسیع ہو چکا ہو گا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی ادارے آکسفام کے مطابق پاکستا ن میں روزانہ تقریباً 40 فیصد کھانا ضائع ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ اتنا کھانا موجود ہوتا ہے کہ ملک کی تمام آبادی سیر ہو کر کھا سکے، لیکن ایک جانب صاحب حیثیت لوگ اضافی کھانے کو ضائع کر دیتے ہیں تو دوسری جانب غرباءبھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ کھانے کی بھاری مقدار کو ضائع ہونے سے بچالیا جائے تو تقریبا ً 50 فیصد آبادی کی ضرورت بآسانی پوری ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں