میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور مجھے روزانہ اپنے گھر سے سکول جانے کے لیے ایک قبرستان کی حدود سے گزرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کے ایک دن کا واقعہ ہے کہ جب چھٹی کر کے میں واپس گھر آرہا تھا تو بارش شروع ہو گئی ۔ قبرستان کے ایک کونے میں ایک نامکمل ساکمرہ تھا جو گورکھنوں کے استعمال میں تھا۔جہاں پر رات کے وقت اکثر گاﺅں کے آوارہ لڑکے آ کر بیٹھتے تھے اور چرس اور بھنگ وغیرہ پیتے تھے۔ جبکہ دن کے وقت وہ کمرہ اکثر خالی پڑا رہتا۔ بارش سے بچنے کے لیے میں دوڑ کر اس کمرے میں چلا گیا۔
کمرے کے وسط میں سوکھی لکڑیاں جل رہی تھی جس کے گرد دو بڑی عمر کے لڑکے بیٹھے چرس پی رہے تھے۔ ان میں ایک تو ہمارے گاﺅں کے نمبردار کا لڑکا تھا اور دوسرا اس کا ایک دوست تھا جوقریبی گاﺅں کے ایک زمیندار کا بیٹا تھا۔ بارش کی وجہ سے میرے کپڑے بھیگ چکے تھے چنانچہ میں آگ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ میں اپنے کپڑے سوکھا رہا تھا کہزمیندار کے لڑکے نے یکدم مجھے پیچھے سے پکڑ لیااور مجھے پیار کرنے لگا۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر اس نے مجھ پر مزید اپنی گرفت مضبوط کر لی۔
میں نے نمبردار کے لڑکے کی طرف دیکھا اور مدد کرنے کو کہا کہ اپنے دوست کو منع کرے اور مجھے چھوڑے۔ مگر نمبرادار کے لڑکے نے بھی ہنسنا شروع کر دیا اور گالی دیکر کہنے لگا کہ “کی ہویا ہے” جب نمبردار کے لڑکے نے میری مدد نہ کی تو اس کے دوست کا حوصلہ اور بلند ہو گیا اور اس نے مجھے پکڑ کر چٹائی پر گرا دیا اور خود میرے اوپر گر گیا۔
میں بہت رویا اور چلایا مگر وہ باز نہ آیا ۔ اس کے بعد نمبردار کے بیٹے نے بھی وہی کچھ کیا ۔بعد میں انھوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر یہ بات کسی کو بتائی تو تمہاری خیر نہیں ہوگی۔ بہرحال میں جب گھر واپس آیا تو بہت پریشان رہا۔ وہ رات میرے لیے ایک بھیانک رات سے کم نہیں تھی۔
اگلے روز میرا سکول جانے کو بھی دل نہ کیا کیونکہ میں ڈر رہا تھا کہ راستے میں مجھے قبرستان سے پھر گزرنا ہے۔ میں کئی روز تک جب سکول نہ گیا تو میری ماں نے مجھ سے سکول نہ جانے کی وجہ پوچھی ۔ مگر میں خاموش رہا کیونکہ میرے والدین بہت غریب تھے اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نمبردار اور زمیندار کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگلے روز میں میں بڑی ہمت کر کے سکول گیا اور جب واپسی پر آرہا تھا تو جونہی قبرستان میں داخل ہوا تو وہی نمبردار کے بیٹے کا دوست کھڑا تھا ۔ میں نے اسے دیکھتے ہی بھاگنے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے پکڑ لیا اور پھر کمرے میں لے گیا۔
بس میری بد قسمتی کی کہانی یہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ اب دوسرے تیسرے دن نمبردار کا لڑکا یا پھر اس کے دوست میرے ساتھ وہی سلوک کرتے ۔ آخر کار میں بھی اس کا عادی ہو گیا ۔پھر میں نے اس کے عوض ان سے پیسے بھی مانگنے شروع کر دیے۔ جب دو تین سال اسی طرح گزر گئے اورمیں اس کام میں ہوشیار ہو گیا تو ایک دن اپنے ایک دوست کے ساتھ گاﺅں سے بھاگ کر شہر آگیا۔ اب مجھے شہر آئے ہوئے بھی 15/16سال ہو گئے ہیں۔
میں یہاں شہر میں سلمہ ستارے کا کام کرتا ہوں ۔ ایک بڑا سا گھر کرایے پر لیا ہوا ہے ۔ وہاں12/13 سال سے لیکر 20/25سال کی عمر کے لڑکے کام کرتے ہیں۔ جن میں سے بیشتر جسم فروشی کا کام کرتے ہے۔ ان میں نئے آنے والوں سے تو میں پہلے اپنے ساتھ ہونی والی زیادتی کا بدلہ لیتا ہوں اور بعد میں اسی دھندے پر لگا دیتا ہوں۔
یہ کہانی لاہور سے تقریباً 250کلومیٹردور جنوب میں جی ٹی پر واقع ایک شہر کے رہائشی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ مجھے جیسے سینکڑوں لڑکے ہیں کہ جن کے ساتھ بچپن میں ان کے کسی دوست، گاﺅں کے فرد ، استاد یا رشتہ دار کزن وغیرہ کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنے۔ان میں سے کچھ تو خوش قسمتی سے مزید زیادتی کا نشانہ بننے سے بچے رہے لیکن بد قسمت لڑکے بار بار زیادتی کا نشانہ بن کر پھر ایسے ہی بن جاتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بچوں کا یہ استحصال ساری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل نوید عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں رپورٹ کئے جانےوالے واقعات کے مطابق ہر روز تین سے پانچ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور زیادہ تر حالات میں مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لئیے ان معصوم پھولوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ غیر رپورٹ کئے جانیوالے واقعات کے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ریسرچ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ زیادتی کرنےوالے اجنبی لوگوں کی نسبت جاننے والے ، والدین کے یا خاندان کے دوست اور قریبی رشتے دار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مجرم کوئی بڑا بچہ بھی ہو سکتا ہے۔مجرم عام طور پر بچوں کو خوفزدہ کردیتے ہیں۔ وہ اس جرم کا بوجھ بچے پر ڈالدیتے ہیں اور انہیں یہ تائثر دیتے ہیں کہ اب اگر انکے والدین کو یہ بات پتہ چلی تو وہ بہت ناراض ہونگے۔ اس طرح سے وہ بچے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ محرومیوں کے شکار بعض بچوں میں کسی بھی قسم کا لالچ ڈال دیتے ہیں۔ بعض بچوں کو یہ ایک کھیل بنا کر پیش کرتے ہیں جو دو بہت قریبی یا محبت کرنے والے دوست کھیلتے ہیں۔ بعض بچوں کو خوفزدہ کر دیتے ہیں اور بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے والدین کو بتانے کی صورت میں وہ والدین کے لئے شرمندگی کا باعث بن جائیں گے یاانکے والدین کو کوءبہت شدید نقصان پہنچے گا۔ بعض بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ کوءبھی بات سمجھ نہیں پاتے۔
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل سلیم بٹ کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گذشتہ پانچ برس کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں اضافہ ہوا ہے۔ سال گذشتہ میں2 ہزار بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان میں سے180سے زائدبچوں کو جنسی تشدد، اغواءیا بدفعلی کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ جبکہ پانچ سال کے اعداد و شمار کے مطابق8 ہزار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی اورایک ہزار سے زائد بچوں کو اس عمل کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ دو سال سے جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات لاہور میں ہوئے ہیں۔ ا±ن کا کہنا ہےیہ وہ کیس ہیں جو ذرائع ابلاغ میں سامنے آئے ہیں جبکہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
شاہد حسن ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ایسے ہی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی اکثریت پھر پیسوں کے عوض جسم فروشی کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ موجودہ دور ایسے نو عمر بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو خاصی تشویش کی بات ہے۔ ان میں14/15سال کے لڑکوں سے لیکر25/30سال تک کے لڑکے شامل ہیں۔انھوں نے بتایا کہ لڑکوں کی جسم فروشی اس معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ انھوں نے برطانوی رائٹر Richard Francis Burton کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا جو 1842میںایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہونے کے بعد بھارت میں آئے اور اس دوران مختلف شہروں میں تعینات رہے۔کراچی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ”کراچی میںایک ایسا قحبہ خانہ موجود تھا کہ جہاں صرف لڑکے ہی ملا کرتے تھے اورافغان علاقوں میں کم عمر لڑکے کی دوستی کو برا نہیں سمجھا جاتا“۔ جبکہ اب تو تقریباً ہر شہر میں ایسے مخصوص علاقے موجود ہیں کہ جہاں پر لڑکے بطور جسم فروش کام کرتے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے انھوں نے مزیدبتایا کہ اس کام میں زیادہ تر اپر اور مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے شامل ہیں۔جو ویڈیوگیم شاپس، ریسٹورنٹس، کولڈ ڈرنک اور فاسٹ فوڈز سپاٹ پرملتے ہیں جبکہ لوئر کلاس خاندانوں کے لڑکے زیادہ تر گلشن اقبال، سبزی منڈی، کھارادر، لی مارکیٹ ، لانڈھی ، ملیر اور لیاری کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ جیسے ان لڑکوں کے گاہک ہوتے ہیں ویسے ہی یہ لڑکے بھی اپنا شکار بس سٹاپوں، شاپنگ سنٹرز، سنیما، فلم اندسٹری، ہوٹل کی لابی، پارکس، ریلوے اسٹیشن، ہسپتال، سکولوں کالجوں کے گراﺅنڈ، نجی عمارتوں کی سیڑھیاں اور لفٹیں ، تاریخی مقامات میں خود بھی ڈھونٹتے ہیں۔ ان لڑکوں میں، ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ گریجویٹ سطح کی تعلیم رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ لڑکے50ہزار سے70ہزار روپے تک ماہانہ کماتے ہیں جبکہ وہ لڑکے جو غیر ملکی سیاحوں وغیرہ کیلئے کام کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ کماتے ہیں جبکہ انگریزی زبان بھی بولنا جانتے ہیں۔ ان لڑکوں میںایک ایسی قسم ہے جو صرف ہوٹلوں کے کمروں تک اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جبکہ دوسرے گاہک کے گھر یا اس کی جگہ پر بھی جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے کچھ ایسے لڑکے بھی ہیں جو پارٹ ٹائم یہ کام کرتے ہیں اور دوران سفر کار میں یا رات کے وقت باغات اور دیگر جگہوں پر ہی اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ پارٹ ٹائم کام کرنے والوں میںزیادہ تر طالب علم، بطور سیلز مین کام کرنے والے لڑکے،ہوٹل اور گیراجوں میں کام کرنے والے لڑکے شامل ہیں جو مزید پیسوں کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے لڑکے بھی موجود ہیں جو صرف یہ کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کو کسی جگہ پر باآسانی لے جا سکتا ہے شاید اسی سہولت کی وجہ سے لڑکوں کے کام کو فروغ ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
نوید عباس ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچپن سے ہی اپنوں بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں ۔انھوں نے تمام والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے کسی سانحے کا شکار نہ ہوں تو ہمیں انہیں آسان ٹارگٹ ہونے سے بچانا پڑیگا۔ اسکی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے بچے سے چاہے ماں ہوں یا باپ باتیں کرنے کی یا کمیونیکیٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آپکا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے تو سارے دن کے بعد اس سے کسی وقت گپ شپ کریں جس میں اسے زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیں اور اپنی باتیں بے حد کم رکھیں۔ ان باتوں میں نوٹ کرتے رہیں کہ بچے کے دوست کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ٹیچرز سے اسکے روابط کیسے جارہے ہیں۔ اسکول وین والا آپ کے بچے سے کیسی اور کسطرح سے گفتگو کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ کوءبڑا شخص آپکے بچے کو غیر معمولی توجہ اور تحفے تحائف کیوں دے رہا ہے۔ گفتگو میں کبھی اپنے بچے کو ٹوک کر ہوشیار نہ کریں کہ آپکو آگے کی باتیں بتانے سے جھجھک جائے۔
اپنے آپ پر سے اپنے بچے کے اعتماد کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیں۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہئیے کہ آپ اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانے میں یا تعلیم کی طرف توجہ دینے میں بیجا سختی سے گریز کریں۔ جو بات پیار سے سلجھ سکتی ہو اسے ڈانٹ ڈپٹ سے نہ کریں۔ ورنہ جو بھی شخص ان سے نرمی اور محبت سے بات کریگا وہ اسکی ہر بات ماننے لگیں گے۔
بچوں کو کسی بڑے کے پاس اکیلا چھوڑنے سے گریز کریں۔ اگر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو صورت حال اس طرح رکھیں کہ وہ جگہ کھلی ہو جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں دیکھ سکتے ہوں۔
اگر بچہ کسی بڑے شخص کے پاس چاہے وہ آپکا قریبی دوست ہو ، رشتے دار یا اسکا بڑا کزن، جانے سے گھبراتا ہے تو اس پر دبا ﺅ نہ ڈالیں کہ وہ ضرور انکے پاس جائے۔
اگر بچہ کسی شخص کے پاس اکیلا نہیں رہنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کریں کہ وہ اسکے ساتھ ضرور رہے۔
یاد رہے کہ اس قسم کے معاملات میں بچے جھوٹ نہیں بولتے اگر وہ کسی شخص کی چاہے وہ آپکو کتنا ہی عزیز ہو کوئی بھی اس طرح کی بات آپکو بتاتے ہیں تو انکی بات پر یقین کریں اور انکی مدد کریں۔
اکثر والدین بازار جاتے ہوئے یا باہر نکلتے ہوئے اپنے بچوں کو رشتے داروں کے یہاں یا محلے پڑوس میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں، یہ اگر ممکن نہ ہو تو واپس آکر اپنے بچے سے تفصیلی پوچھیں کہ اس نے یہ وقت وہاں کیسے گذارا۔
اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ آپکا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گذارنا زیادہ پسند کرتا ہے اور کیوں۔
جو بچے انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں ان کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اپنا ذاتی یا گھر کا فون نمبر کبھی نیٹ پر استعمال نہ کریں، اپنے اسکول اور کلاس کے بارے میں معلومات اجنبی لوگوں کو نہ دیں۔ کسی اجنبی سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں۔ گھر میں کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھیں کہ اس کی اسکرین آپ کو چلتے پھرتے نظر آتی رہے۔ انہیں کبھی بھی بچوں کے کمروں میں نہ رکھیں۔ اور نہ ہی کسی الگ تھلگ جگہ پر۔ ان سوفٹ وئیرز کے بارے میں معلوم کرتے رہیں جو کمپیوٹر پر مختلف سائیٹس کو فلٹر کرتے رہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سدرا کاظمی کا کہنا ہے کہ اگر بچے میںآپ درج ذیل عالامات دیکھتے ہیں تو ان پرتوجہ دیں۔بلا وجہ غیر معمولی غصہ، ڈپریشن، الگ تھلگ رہنااور ایسی گفتگو کرنا جو انکی عمر کے حساب سے مناسب نہ ہوں۔ بلا وجہ انکے کپڑے پھٹے ہوں یا ان پر مخصوص داغ، جسم پر نیل یا کھرونچوں کے نشانات جن کی وجہ بچہ آپکو نہ بتا پائے۔ انکے اعضائے مخصوصہ کے پاس سرخی، سوجن، بار بار ہونے والے پیشاب کی نالی کے انفیکشن، پیٹ درد اور مستقل پریشان رہنا۔ یہ ضروری نہیں کہا کہ ان میں سے ہر علامت اسی طرف جاتی ہو۔ مگر بچوں کی ان علامتوں کی سنجیدگی سے وجہ معلوم کریں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ اکثر صورتوں میں کوئی واضح علامت نہیں ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو انکے جسم کے متعلق ابتدائی معلومات اس طرح دینی چاہئیے کہ انہیں یہ اندازہ ہو جائے کہ انکے جسم کے کس حصے کو لوگ چھو سکتے ہیں اور کس حصے کو نہیں۔ یعنی ان میں ستر کا احساس نہ صرف پیدا کریں بلکہ اگر کوئی اسکی خلاف ورزی کرتا ہے تو بچے کو یہ اعتماد دیں کہ وہ آپ کو فوراً بتائے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں یقیناً ہم میں سے کوئی نہیں چاہے گا ان نازک پھولوں کو کوئی اپنے سخت ہاتھوں اور حیوانیت سے مسل دے۔
“لڑکوں سے جنسی زیادتی” پر 3 خیالات
والدین کو چاہیے کہ وہ بچپن سے ہی اپنوں بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں ۔انھوں نے تمام والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے کسی سانحے کا شکار نہ ہوں تو ہمیں انہیں آسان ٹارگٹ ہونے سے بچانا پڑیگا۔ اسکی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے بچے سے چاہے ماں ہوں یا باپ باتیں کرنے کی یا کمیونیکیٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آپکا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے تو سارے دن کے بعد اس سے کسی وقت گپ شپ کریں جس میں اسے زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیں اور اپنی باتیں بے حد کم رکھیں۔ ان باتوں میں نوٹ کرتے رہیں کہ بچے کے دوست کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ٹیچرز سے اسکے روابط کیسے جارہے ہیں۔ اسکول وین والا آپ کے بچے سے کیسی اور کسطرح سے گفتگو کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ کوءبڑا شخص آپکے بچے کو غیر معمولی توجہ اور تحفے تحائف کیوں دے رہا ہے۔ گفتگو میں کبھی اپنے بچے کو ٹوک کر ہوشیار نہ کریں کہ آپکو آگے کی باتیں بتانے سے جھجھک جائے۔
اپنے آپ پر سے اپنے بچے کے اعتماد کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیں۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہئیے کہ آپ اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بچوں کو ڈسپلن کا عادی بنانے میں یا تعلیم کی طرف توجہ دینے میں بیجا سختی سے گریز کریں۔ جو بات پیار سے سلجھ سکتی ہو اسے ڈانٹ ڈپٹ سے نہ کریں۔ ورنہ جو بھی شخص ان سے نرمی اور محبت سے بات کریگا وہ اسکی ہر بات ماننے لگیں گے۔
بچوں کو کسی بڑے کے پاس اکیلا چھوڑنے سے گریز کریں۔ اگر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو صورت حال اس طرح رکھیں کہ وہ جگہ کھلی ہو جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں دیکھ سکتے ہوں۔
اگر بچہ کسی بڑے شخص کے پاس چاہے وہ آپکا قریبی دوست ہو ، رشتے دار یا اسکا بڑا کزن، جانے سے گھبراتا ہے تو اس پر دبا ﺅ نہ ڈالیں کہ وہ ضرور انکے پاس جائے۔
اگر بچہ کسی شخص کے پاس اکیلا نہیں رہنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کریں کہ وہ اسکے ساتھ ضرور رہے۔
یاد رہے کہ اس قسم کے معاملات میں بچے جھوٹ نہیں بولتے اگر وہ کسی شخص کی چاہے وہ آپکو کتنا ہی عزیز ہو کوئی بھی اس طرح کی بات آپکو بتاتے ہیں تو انکی بات پر یقین کریں اور انکی مدد کریں۔
اکثر والدین بازار جاتے ہوئے یا باہر نکلتے ہوئے اپنے بچوں کو رشتے داروں کے یہاں یا محلے پڑوس میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں، یہ اگر ممکن نہ ہو تو واپس آکر اپنے بچے سے تفصیلی پوچھیں کہ اس نے یہ وقت وہاں کیسے گذارا۔
اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ آپکا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گذارنا زیادہ پسند کرتا ہے اور کیوں۔
جو بچے انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں ان کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اپنا ذاتی یا گھر کا فون نمبر کبھی نیٹ پر استعمال نہ کریں، اپنے اسکول اور کلاس کے بارے میں معلومات اجنبی لوگوں کو نہ دیں۔ کسی اجنبی سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں۔ گھر میں کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھیں کہ اس کی اسکرین آپ کو چلتے پھرتے نظر آتی رہے۔ انہیں کبھی بھی بچوں کے کمروں میں نہ رکھیں۔ اور نہ ہی کسی الگ تھلگ جگہ پر۔ ان سوفٹ وئیرز کے بارے میں معلوم کرتے رہیں جو کمپیوٹر پر مختلف سائیٹس کو فلٹر کرتے رہیں۔