روسی سائنسدان آئیوانوف کو آج دنیا ”پاگل سائنسدان“ کے نام سے جانتی ہے۔ اس نے 1896میں خارکوو یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور ویٹرنری میڈیسن کے شعبے سے منسلک ہو گیا۔ آئیوانوف نے مختلف نوع کے جانوروں کے آپس میں ملاپ سے نئے جانور پیدا کرنے کے تجربات شروع کیے۔ اسے ان تجربات میں تو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی لیکن وہ نر جانور سے نطفہ لے کر مصنوعی طریقے سے مادہ میں رکھنے کا موجد قرار پایا جس سے اسے بے حد شہرت ملی اوروہ 20ویں صدی کے اوائل میں ہی اس شعبے کا لیڈر بن گیا۔
آئیوانوف نے زیبرے اور گدھی کے باہمی ملاپ سمیت کئی ایسے تجربات کیے لیکن جس چیز نے اس کے لیے ”پاگل سائنسدان“ کا لقب حاصل کیا وہ اس کی بندریا اور انسان کے ملاپ سے ایک نیا جانور پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ اس نے اپنے اس مفروضے کا اظہار خیال 1910ءمیں آسٹریا میں ہونے والی زوالوجسٹس کی عالمی کانفرنس میں کیا۔تب تک وہ محق اس مفروضے پر سوچ بچار کررہا تھا، بعد میں اس نے اس مفروضے پر کئی تجربات کیے۔
یہ وہ وقت تھا جب سٹالن اپنی فوج کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنانے کی شدید خواہش میں مبتلا تھا، اسے آئیوانوف کے اس مفروضے نے خاصا متاثر کیا کہ انسان اور بندریا کے ملاپ سے انتہائی مضبوط، پھرتیلے اور خونخوار فوجیوں پر مشتمل فوج بنائی جا سکتی ہے۔ اس نے 1924ءمیں آئیوانوف سے رابطہ کیا اور اسے کہا ”میں ایک ایسا نیا ناقابل شکست انسان بنانا چاہتا ہوں جسے تکلیف کا احساس نہ ہو ، جو مزاحمت کرنے والا ہو اور ہم جس طرح کا کھانا کھاتے ہیں وہ اس سے مختلف چیزیں کھاتا ہو۔“
آئیوانوف کو شاید اسی دن کا انتظار تھا۔ اس نے بغیر وقت ضائع کیے تجربات شروع کر دیئے، اس مقصد کے لیے وہ مغربی افریقہ چلا گیا۔ اس کام کے لیے اسے سائنس کے مختلف اداروں کی طرف سے بھاری چندہ دیا گیا۔ روسی سائنس اکیڈمی نے اسے 10ہزار امریکی ڈالرز کے فنڈز دیئے۔ سب سے پہلے اس نے انسان کا نطفہ چیمپینزی میں رکھ کر اسے حاملہ کرنے کا تجربہ کیا۔ بعد میں اس نے بندریا پر بھی ایسے ہی تجربات کیے لیکن اس کے تمام تر تجربات ناکام ہو گئے اور آئیوانوف کے لیے پاگل سائنسدان کا خطاب چھوڑ گئے۔