کھانا کھانے اور بچوں کے سونے کے بعد وہ میرے پاس آگئی۔
’’فاروق! آج مما کا فون آیا تھا‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ اس کے چہرے سے کسی الجھن کااظہار ہو رہا تھا۔ میں نے بغیر بولے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’وہ ہمیں کچھ دنوں کے لیے بلا رہی ہیں۔‘‘
’’کیوں خیریت ہے؟‘‘ میں چونک گیا۔
’’شرجیل اور ناعمہ میں جھگڑا ہوگیا ہے ناعمہ۔۔۔مما کے گھر آگئی ہے‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
’’صائمہ! میاں بیوی میں جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور ۔۔۔‘‘
’’یہ بات نہیں‘‘ وہ میری بات کاٹ کربولی’’شرجیل ناعمہ کو طلاق دینا چاہتاہے‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کیا کہہ رہی ہو؟ ‘‘میں نے حیرت سے پوچھا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اگر ناعمہ کے ہاں کوئی بچہ ہو جاتا تو شاید وہ۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھراگئی۔
’’آخر کوئی بات تو ہوگی؟‘‘
جنات کے زیراثرخاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کوئی عورت شرجیل کے پیچھے پڑ گئی ہے پہلے تو وہ کہتا تھا میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں بڑی مشکل سے ناعمہ رضا مند ہوئی تھی کہ اس عورت نے شرط لگا دی پہلی بیوی کو طلاق دو گے تو میں تم سے شادی کروں گی‘‘ وہ کوئی اچھی عورت نہیں ہے۔۔۔طوائفوں کے خاندان سے تعلق ہے اس کا‘‘ آج صائمہ مجھے حیران کیے جا رہی تھی۔ شرجیل سے میری چند بار ملاقات ہوئی تھی وہ ایک سلجھا ہوا بردبار انسان تھا۔
’’شرجیل کوکیا سوجھی یہ؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔
’’مماکہہ رہی تھیں اس عورت نے شرجیل پر جادو کروا دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے پیچھے پاگل ہو رہا ہے‘‘
’’یہ تو واقعی پریشانی کی بات ہے، کیا شرجیل کو معلوم ہے وہ پیشہ ور عورت ہے؟‘‘
’’اس نے خود ناعمہ کو بتایا تھا دراصل یہ عورت کسی کیس کے سلسلے میں شرجیل سے ملنے آتی تھی شرجیل نے اسکی مدد کی ۔ انہی ملاقاتوں میں نہ جانے اس نے ایسا کیا کر دیا کہ شرجیل اس کے پیچھے دیوانہ ہوگیا‘‘ صائمہ نے تفصیل بتائی۔
’’مما چاہتی ہیں ہم کچھ دنوں کے لیے آجائیں ایک تو ناعمہ کوکچھ تسلی ہو جائے گی دوسرے شرجیل کو سمجھائیں کہ وہ اس حماقت سے باز رہے۔ میں چاہتی تھی آپ شرجیل کو سمجھائیں وہ آپ کی بڑی عزت کرتا ہے آپ کی بات نہیں ٹالے گا۔‘‘
’’ایسے معاملات میں انسان کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ کسی کی بات نہیں مانتا۔بہرحال میں فون پر اس سے بات کروں گا اگر مجھے کوئی مثبت جواب ملا تو چلے چلیں گے‘‘ میں نے اس کی تسلی کی خاطر کہا۔
’’اچھا‘‘ وہ بہت مایوس تھی۔ اسکے چہرے پر اداسی مجھ سے دیکھی نہ جا رہی تھی۔
’’میری جان! تم فکر نہ کرو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
’’پتہ نہیں شرجیل کو کیا ہوگیا ہے وہ تو ناعمہ پرجان چھڑکتا تھا‘‘صائمہ نے روتے ہوئے بتایا۔
’’یہ عورت کا چکر ہی براہوتا ہے۔ اس میں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں بہرحال تم فکرنہ کرو جوکچھ ہم سے ہو سکا ضرورکریں گے۔‘‘ میری تسلی سے وہ کچھ مطمئن ہو کر سوگئی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے بھی نیند آگئی۔
نہ جانے رات کا کونسا پہر تھامیری آنکھ کھل گئی۔
’’پرتیم!‘‘ رادھا کی سرگوشی سنائی دی۔
’’تھوڑی دیر کے لیے باہر آجاؤ۔ دروجے سے باہر‘‘ اس نے عجیب بات کہی۔
’’دروازے سے باہر کیوں۔۔۔لان میں کیوں نہیں؟‘‘ میں نے ایک نظر صائمہ کی طرف دیکھ کردبی آواز میں پوچھا۔
’’باہر آؤ پھر بتاتی ہوں‘‘ اس کی آواز میں بچپنی تھی۔
’’اچھا آرہاہوں‘‘ میں نے سگریٹ کا پیکٹ دروازے سے نکالا اور دبے پاؤں خوابگاہ سے نکل آیا۔ باہر نکلنے سے پہلے میں نے اوور کوٹ پہن لیا۔ جونہی میں لان میں آیا سردی کی لہر نے مجھے کپکپانے پرمجبور کر دیا۔ گیٹ کھول کرمیں باہر نکل آیا۔ ہر طرف خاموشی اور تاریکی کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔
’’رادھا۔۔۔‘‘ میں نے باہر آکر پکارا۔ میرا خیال تھاوہ ابھی جواب دے گی لیکن خاموشی چھائی رہی۔ کچھ دیر انتظار کرکے میں نے دوبارہ اسے پکارا۔ اس بار بھی جواب نہ دارد۔
میں حیران تھا مجھ باہر بلا کر وہ کہاں چلی گئی۔یخ بستہ ہواجسم کے آر پار ہو رہی تھی میں نے سگریٹ سلگایا اور گہرے کش لینے لگا اس سے سردی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔ ہر شے دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔
’’رادھا۔۔۔‘‘ میں نے اس بار ذرا بلند آواز سے پکارا۔ سڑک کے کنارے لگے درختوں سے پانی کے قطرے ٹپکنے کی آواز کے سوا کچھ نہ تھا۔ سگریٹ کو ہونٹوں میں دبا کر میں نے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیے۔ ایسا توکچھ بہ ہوا تھا کہ رادھا مجھے بلا کر چلی گئی ہو۔ دور سے کسی کے قدموں نے چاپ سنائی دینے لگی۔میں نے چونک کر دیکھا دھند کے باعث کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا لیکن قدموں کی چاپ واضح ہوتی جا رہی تھی۔ میں گیٹ کی آڑ میں ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد کسی شخص کا دھندلا سا ہیولا نظر اایا۔ وہ سیدھا میرے گھر کی طرف چلا آرہا تھا۔ میں مزید ہٹ کربالکل گیٹ کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ اورجھری سے باہر جھانکنے لگا۔
آنے والا بالکل میرے گیٹ کے پاس آگیا۔ کچھ جانا پہچانا سا حلیہ تھا۔ آتے ہوئے چونکہ میں نے گیرج کی لائٹ آف کر دی تھی ۔ وہ کچھ اور قریب آیا تو اسے پہچان کر میں ششدر رہ گیا وہ کوئی اور نہیں محمد شریف تھا۔
اگر میں نے گیٹ کو بھیڑ نہ دیا ہوتا تو وہ مجھے دیکھ لیتا۔ اس کے ہاتھ میں کشکول نما برتن تھاجس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ہوا کا رخ اندر کی طرف ہونے کی وجہ سے میرے نتھنوں میں لوبان کی خوشبو اور دھواں آیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ گیٹ کھول کر اندر نہ آجائے۔ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ آدھی رات کے وقت محمد شریف میرے گھر کے باہر کیا کر رہا ہے؟
میں مسلسل جھری سے جھانک رہا تھا اس نے آہستہ آہستہ آواز میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا الفاظ تو سمجھ نہ آرہے تھے لیکن محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ قرآنی آیات کا ورد کر رہا ہے۔ پڑھنے کے ساتھ وہ بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی گیٹ کے مختلف حصوں پر پھیرتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے ہاتھ میں پکڑے برتن سے کسی شے کی چٹکی بھری اور ہتھیلی پر رکھ کر اسے پھونک سے گیٹ کی طرف اڑایا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مٹی نما کسی شے کی چھوٹی سی چٹکی نے گیٹ کے آس پاس سارے علاقے کو اس طرح لپیٹ میں لے لیا جیسے گہرا گردو غبار چھا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی لوبان کی خوشبو تیز ہوگئی۔ گرد غبار تیزی سے بڑھ رہا تھا تھوڑی دیر گیراج لان سے ہوتا ہوا برآمدے اور کمروں کی طرف بڑھنے لگا۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا اور آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا برآمدے میں آگیا۔
ہر طرف اس قدر غبار چھایا ہوا تھا کہ برآمدے کے بلب کی روشنی بالکل مدہم ہوگئی۔ میں جلدی سے دروازہ کھول کر کاریڈور میں آگیا اور جھری سے جھانک کر دیکھا محمد شریف گیراج میں آچکا تھا۔ اگر میں وہیں کھڑا رہتا تو وہ یقیناًمجھے دیکھ لیتا۔ وہ مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ اس کی مدہم آواز میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ لان کے درمیان میں پہنچ کر وہ بیٹھ گیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ شریف کے گرد غبار قطعاً نہ تھا۔ اس کے گرد ایک ہالہ سا بناہوا تھا جیسے چاند کے گرد روشن ہالہ ہوتا ہے۔
اتنی شدید شردی کے باوجود اس نے صرف ایک چادر احرام کے طرز پر باندھ رکھی تھی۔ وہ لان کی بھگی ہوئی گھاس پر بڑے اطمینان سے آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ برتن اس نے اپنے آگے زمین پر رکھ دیا تھا جس سے اب ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ مکان کے سامنے والا سارا حصہ دھواں نما غبار میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوبان کی خوشبو اس قدر تیز ہوگئی تھی کہ سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ میں دروازے کی جھری سے آنکھ لگائے بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے بڑے انہماک سے پڑھ رہا تھا۔ روشنی آسمان کی طرف آتی محسوس ہو رہی تھی لیکن اندر ہونے کی وجہ سے اس کا مخرج دیکھنے سے قاصر تھا۔ کھڑے کھڑے میری ٹانگیں شل ہونے لگیں لیکن تجسس مجھے وہاں رکنے پر مجبور کیے جا رہا تھا۔شام تک میں اس کے آنے سے بالکل ہی مایوس ہو چکا تھا۔ اب میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے تھے۔ ہو سکتا ہے اسکا جاپ مکمل نہ ہوا ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کمبخت کالی داس نے اس کوئی نقصان پہنچا دیا ہو۔ لیکن اتنا تو مجھے یقین تھا کہ وہ کالی داس کے بس کی نہیں ہے۔ اچانک میرے دماغ میں جیسے جھماکا سا ہوا۔ کہیں محمد شریف کے حصار کی وجہ سے وہ نہ آپائی ہو۔ یہ سوچ کرمیرا دماغ گرم ہوگیا۔ میں نے اسی وقت محمد شریف کو بلوایا ۔ وہ جلدی سے اندر آگیا۔
’’محمد شریف کیا تم نے میرے دفتر کے حصار ختم کر دیا تھا؟‘‘ میں نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’جی جناب! میں نے آپ کے حکم کے مطابق کل رات ہی یہ کام کر دیا تھا‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’او ر گھر کا؟‘‘
’’جی ہاں لیکن اسے مکمل طور پر ختم ہونے کے لیے دو دن لگیں گے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے تم جاؤ‘‘ میرا لہجہ بالکل سپاٹ تھا۔ اس نے افسردگی سے میری طرف دیکھا اور بنا کچھ کہے سلام کرکے واپس مڑ گیا۔ نہ جانے مجھے کیا ہوگیاتھا۔ میں رادھا کی انتظار میں بالکل ہی بچہ بن گیا تھا۔ فکر دم بدم بڑھتی جا رہی تھی۔ سہہ پہر تک میں تقریباً مایوس ہو چکا تھا۔ میں نے چابیاں اٹھائیں اور باہر نکل آیا۔ راستے میں بھی میں رادھا کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ اس حالت میں میرا دل گھرجانے کو بھی نہ چاہا۔ میں نے یونہی بلا ارادہ گاڑی ایک سڑک پر ڈال دی جو شہر سے باہر جا رہی تھی۔ آہستہ رفتار سے گاڑی چلائے جا رہا تھا۔ شام ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ میں بینک ٹائم ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی نکل آیا تھا۔ اچانک گاری نے جھٹکے لینے شروع کر دیئے۔ اور ایک دوجھٹکوں کے بعد اس کا انجن بند ہوگیا۔ اتنی دیر میں میں اسے سڑک کے کنارے لانے میں کامیاب ہوگیا۔ تھا۔
’’مصیبت در مصیبت‘‘ میں جھنجھلا گیا۔ پٹرول گیج پر نظر ڈالی تو ٹینکی تقریباً فل تھی۔ نیچے اتر کر بونٹ کھول کر دیکھا بظاہر کسی قسم کی خرابی نظر نہ آرہی تھی۔ لیکن میں کوئی میکنک تو نہ تھا کہ پہلی نظر میں نقص ڈھونڈ لیتا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ جس جگہ میں موجود تھا وہ تقریباً سنسان تھی دراصل خیالات میں ڈوب کر کافی دور نکل آیا تھا۔ اب شام کا دھندلکا پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔ پرندے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ سڑک پر بسیں اور کاریں زناٹے سے گزر رہی تھیںَ میں اس آس میں ہر کار والے کو ہاتھ دیتا کہ وہ رک جائے لیکن جس قسم کے حالات کا شکار ہمارا ملک رہتا ہے اس کے پیش نظر کوئی کسی کی مدد کرکے خود کو مشکلات میں نہیں پھنسانا چاہتا۔ یوں بھی شام کا وقت تھا کوئی گاڑی والا رسک نہ لینا چاہتا تھا۔
میں نے ایک بار پھر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ سڑک کے کنارے کھیت تھے۔ کچھ فاصلے پر مجھے کسی گاؤں کے آثار نظر آرہے تھے۔ وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہ تھی۔ بمشکل بیس منٹ میں پیدل انسان وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن گاڑی کس کے آسرے پر چھوڑتا؟ ابھی میں کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے دور کھیتوں میں ایک آدمی سڑک کی طرف آتا نظر آیا۔ میں رک کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے برابر اس پر نظر رکھی ہوئی تھی کہیں وہ کسی دوسری طرف نہ چلا جائے۔ شام کا اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ آدمی سڑک کے قریب پہنچ گیا میں نے آگے بڑھ کر اسے آواز دی۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا پھر آہستہ قدموں سے میری طرف آنے لگا۔
’’اسلام علیکم‘‘ میں نے اس کے قریب آنے پر سلام کرتے ہوئے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اس نے میرے سلام کا جواب دیا نہ ہی میرے بڑے ہوئے ہاتھ کی طرف دیکھا۔ وہ یک ٹک میری طرف دیکھ رہا تھا۔ شکل اور حلیے سے وہ ایک مکمل دیہاتی دکھائی دے رہا تھا۔
’’بھائی! میری گاڑی خراب ہوگئی ہے اور میں اس علاقے میں اجنبی ہوں اگر قریب کہیں ورکشاپ ہو تو مجھے بتا دو۔‘‘ میں نے اس کی بے اعتنائی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔
’’ادھر گاؤں میں ایک مکینک ہے تو سہی لیکن تمہیں خود وہاں جا کر اسے بتانا پڑے گا۔ کیونکہ میری اس کے ساتھ بول چال نہیں ہے ہاں میں تمہیں وہاں تک لے جا سکتا ہوں‘‘ اس بار وہ ملائمت سے بولا۔ وہ یہاں کی مقامی زبان سرائیکی بول رہا تھا جسے اب میں کافی حد تک سمجھنے لگا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔لیکن گاڑی یہاں کس پر چھوڑ کر جاؤں‘‘ میں نے مجبوری بتائی۔
’’کیوں موٹر کو تالہ نہیں لگتا کیا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’تالہ تو لگتا ہے ۔۔۔اچھا ٹھیک ہے ‘‘ میں نے گاڑی لاک کرتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری مہربانی کہ تم میری مدد کر رہے ہو۔‘‘ اس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ مڑ کر گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں اسکے پیچھے چل پڑا۔ مجھے یہ فکر بھی تھی کہ صائمہ میرے گھر نہ پہنچنے سے پریشان ہوگی۔ دیکھنے میں تو وہ گاؤں نزدیک لگتا تھا لیکن ہمیں تقریباً آدھ گھنٹہ چلنا پڑا تب ہم گاؤں میں داخل ہوسکے۔ رات کا اندھیرا مکمل طور پراپنے پر پھیلا چکا تھا۔ گاؤں کی گلیاں کچی تھیں جیسا کہ عموماً ہوتی ہیں۔ مجھے شکنتلا کا گاؤں یاد آگیا۔ وہ بھی اس طرح کا ایک گاؤں تھا وہاں بھی میں نے کسی متنفس کو نہ دیکھا تھا یہاں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا۔ فرق صرف دن اور رات کا تھا یوں بھی دیہاتوں میں رات سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ’’کوئی چائے خانہ یا دکان تو کھلی ہونی چاہئے تھی‘‘ میں نے سوچا۔ لیکن مجھے مزید سوچنے کا موقع نہ ملا۔ دیہاتی ایک مکان کے پاس رک گیا۔
’’یہ ہے اس کا گھر ، دروازہ کھٹکھٹاؤ کوئی باہر آئے تو کہنا مستری سے ملنا ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر چلتا بنا۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز آئی’’کون ہے؟‘‘
’’بھائی صاحب ! ذرا باہر آئیے‘‘ میں نے اونچی آواز سے کہا۔
’’اندرآجاؤ‘‘ اندر سے آواز آئی۔
میں جھجھکتے ہوئے اندر داخل ہوگیا۔ میرا خیال تھا یہ کوئی ورکشاپ ہوگی۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میں نے خود کو ایک کچے صحن میں پایا۔ سامنے ایک چھپر نما کمرہ بنا ہوا تھا جس میں مدہم روشنی کا بلب جل رہا تھا۔ چھپر کا باقاعدہ دروازہ تھا جو کھلا ہوا تھا۔ ’’کوئی ہے؟‘‘ میں نے صحن میں کھڑے ہو کر پکارا۔
’’اندر آجاؤ‘‘ آواز دوبارہ آئی۔ وہ شخص اردو میں بات کر رہا تھا۔ میں اس بار بلا جھجھک اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میرے پیچھے کھٹاک سے لکڑی کا دروازہ بند ہوگیا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا لیکن اسی وقت کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔
میری ساری حسیات جاگ گئی تھیں۔ میں نے چوکنے انداز سے اندھیرے میں چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ میں پھرکسی مصیبت میں پھنس چکا تھا’’کون ہو تم‘‘ سامنے آؤ‘‘ میں نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ہا ۔۔۔ہاہا۔۔۔‘‘ کمرہ خوفناک قہقہے سے گونج اٹھا۔ قہقہے کی آواز چاروں طرف سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔
’’کیوں بالک!؟ کیسے ایک چوہے کی طرح تو میرے چرنوں میں آپڑا ہے۔‘‘ کمرے میں کالی داس کی مکروہ آواز گونجی ساتھ ہی کمرہ روشن ہوگیا۔ وہ منحوس ڈھانچہ بالکل میرے سامنے کھڑا مجھے مضحکہ خیز نظروں سے گھور رہا تھا۔
’’تم۔۔۔‘‘ اسے اپنے سامنے دیکھ کر میرے غصے کی انتہا نہ رہی۔
’’تم اتنی جلدی اپنی اوقات بھول گئے کالی داس!‘‘میں نے اسے قہر بار نظروں سے گھورا ’’واقعی تم کسی ہیجڑے کی اولاد ہو جو اتنے بزدلانہ طریقے سے مجھے ہر بار اپنے پاس بلوا لیتے ہو‘‘ میں غصے سے سلگ اٹھا۔
’’ابھی تیری یہ لپ لپ کرتی جیب(زبان) بند ہو جائے گی‘‘ وہ زہر خند سے بولا
اس کے اورمیرے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے منہ پر تھپڑ مارنا چاہا لیکن مجھ پر انکشاف ہو اکہ میں ایک انچ بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ اس خبیث نے پہلے کی طرح مجھے بے حس و حرکت کر دیا تھا۔ میں زمین پر کھڑا تھا لیکن کسی نادیدہ جکڑ بندی میں۔ میں نے زور لگا کر اس بندھن کو توڑنا چاہا لیکن بے سود۔ میں اپنے جسم پر اختیار کھو چکا تھا ۔
’’زنخے! مجھے اپنی گندی شیطانی قوت سے آزاد کرکے دیکھ میں تیرا کیا حشر کرتا ہوں؟ اس دن تو نے میری اور رادھا کی منت کرکے معافی مانگی تھی لیکن اتنی جلدی بھول گیا۔ اس بار تو ناک بھی زمین سے رگڑے گا تو معافی نہیں ملے گی‘‘ میں کسی طرح اسے باتوں میں لگا کر موقع حاصل کرنا چاہتا تھا مجھے یقین تھا کہ ابھی رادھا آجائے گی اور اس ملعون کو اس بار میں اپنے ہاتھوں سے قبرمیں اتاروں گا۔
’’اس سمے کیول رادھا ہی نہیں کچھ اور شکتیاں بھی تیری سہائتا کر رہی تھیں جس کارن کالی داس بے بس ہوگیا تھا۔ پرنتو اس بارمجھے تیرے پاس وہ شکتیاں نجر نہیں آرہیں۔ میں تو اسی شبھ گھڑی کے انتجارمیں تھا مورکھ۔۔۔کب مجھے اوسر ملے اورمیں تیرا کریہ کرم کروں‘‘ کالی داس نے نفرت سے میری طرف دیکھا۔
’’بلا اپنی پریمیکا کو۔۔۔کہاں ہے وہ؟ اسے آواج دے کہ وہ آکر تجھے میرے کشٹ سے بچائے‘‘ وہ گرجا۔
’’ابھی آکر تیری وہ ماں تجھے خود جہنم میں پہنچائے گی ہیجڑے! ‘‘ میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’آج وہ حرام کی جنی تجھے میرے کشٹ سے بچانے نہ آپائے گی۔ میں نے پہلے ہی اس کا پربند کرلیا ہے۔ رہی تیری یہ بات کہ یدی میں تجھے چھوڑ دوں تب بھی تو میرا کچھ نہ کر پائے گا اپرادھی !کیول میں نے اس کارن تجھے باندھ دیا کہ تو ایک ملیچھ مسلا ہے اور میں نہیں چاہتا تیرے پلید ہاتھ میرا شریر چھوئیں‘‘ اسنے بڑی حقارتسے کہا۔
میں نے ایک بار پھر خودکو اس نادیدہ جکڑن سے آزاد کرانے کی کوشش کی لیکن اس شیطان نے نہ جانے کیا کیا تھا کہ میرے لئے حرکت کرنا ناممکن نہ رہاتھا۔ وہ چلتا ہوا اطمینان سے کمرے میں بچھی واحد چارپائی پربیٹھ گیا۔
’’مورکھ! کالی داسسے یدھ کرنے چلا تھا‘‘ وہ بڑبڑایا پھر اس کے ہونٹ ہلنے لگے وہ کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں شدت سے رادھا کا منتظر تھا۔ کالی داس کی اس بات کو میں قعطاً سمجھ نہ پایا تھا ،وہ کن طاقتوں کی بات کررہا تھا جو اس دن میری مدد کر رہی تھی جب رادھا نے آگ کے گولے کو اسکے پیچھے لگا دیا تھا اور وہ اپنی زندگی کے لئے گڑ گڑا رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اس نے آج رادھا کا کوئی بندوبست کرلیا ہے۔ کیا وہ سچ کہہ رہا تھا کیا رادھا واقعی میری مددکرنے کے لیے نہیں آپائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ بات واقعی میرے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی تھی۔ کالی داس آنکھیں بند کیے کچھ پڑھنے میں مصروف تھا۔ یکدم اس نے آنکھیں کھول دیں۔ جو دہکتے سرخ انگاروں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ اچانک اسنے میری طرف تھوک دیا۔ تھوک کا میرے جسم پر پڑنا تھا کہ مجھے یوں لگا ہوا جیسے میرے جسم پر کسی نے تیزاب پھینک دیا ہو۔ تھوک میرے پیٹ پر پڑا اور کپڑوں کو جلاتا ہوا جسم کو بھی جلا گیا۔ میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ یوں لگا جیسے کسی نے میری ناف کے پاس انگارہ رکھ دیا ہو جو آہستہ آہستہ میرے جسم کے اندر داخل ہو رہا ہے۔ میں بری طرح کسمسایا لیکن کسی نادیدہ قوت نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے تھے۔ اس کا ناپاک تھوک میرے جسم پر گر کر مجھے بے پناہ اذیت دے رہا تھا۔ میرے منہ سے مسلسل چیخیں نکل رہی تھیں۔ میری تکلیف کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے جس کے پیٹ میں کبھی گولی لگی ہو۔ تھوک تھا یا برما جومیرے پیٹ میں سوراخ کرتا جا رہا تھا۔ اذیت سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔تکلیف برداشت سے باہر تھی میری آنتیں تک جل رہی تھیں۔ پھر تکلیف کی شدت سے میرے ہوش و حواس ساتھ چھوڑ گئے۔
آخری احساس جو مجھے ہوا وہ یہ تھا کہ میں زمین پر گر پڑا تھا نہ جانے کتنی دیر میں بے ہوش رہا پھر دردکی ایک تیز لہر مجھے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔ میرے سر میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ پیٹ کی تکلیف الگ مارے ڈال رہی تھی۔ میں نے بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا وہ منحوس ڈھانچہ میرے سامنے بیٹھا مجھے مضحکہ خیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ، تیری پریمیکا تو نہ آئی مسلے! اب کیا وچار ہے؟‘‘ اس نے مضحکہ اڑایا۔’’وہ ابھاگن آبھی کیسے سکتی ہے؟ وہ تو خود اس سمے۔۔۔‘‘ بات ادھوری چھوڑ کر اس نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔’’آج معلوم پڑے گا بلوان کون ہے؟ میں نے تجھے کہا تھا نا، میں تیرا بلیدان کالی ماتا کے پوتر چرنوں میں کروں گا اور کالی کو تیری رت(خون) سے اشنان کراؤں گا۔ کالی داس جوایک بار کہہ دے وہ پتھر پر ریکھا (لکیر) ہوتی ہے۔‘‘ میں بے بسی کی تصویر بنا اس کی بکواس سننے پرمجبور تھا۔
’’بولتا کیوں نہیں‘ آج تیری جیب کہاں چلی گئی پلید مسلے!‘‘ وہ گرجا۔
’’باوجود تکلیف کے میرے منہ سے نکلا۔
’’نامرد۔۔۔! اگر تجھ میں ذرا سی غیرت بھی ہے تو مجھے اپنے جادو سے آزاد کر پھر دیکھ میں تیرے اس منحوس ڈھانچے کو کیسے زمین میں اتارتا ہوں‘‘
’’رسی جل گئی بل نہ گیا‘‘ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ چھا گئی۔ ‘‘ یدی تیرے متر تو بہت شکتی مان ہیں ان کے کیوں نہیں بلاتا؟‘‘ وہ برابر اپنی بکواس کرتا رہا۔ نہ جانے کس کو بار بار میرا دوست کہہ رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں بجلی سی چمکی۔ وہ یقیناً محمد شریف اور اس بزرگ جن کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ محمد شریف نے میرے سلسلے میں ان سے مدد کی درخواست کی تھی اس کے ساتھ ہی مجھے محمد شریف کے وہ الفاظ یاد آئے جو اس نے کہے تھے کہ میرے دشمن موقع کی تاک میں ہیں اس لیے مجھے حصار ختم نہیں کروانا چاہئے۔ میں نے خود اپنے لیے یہ گڑھا کھودا تھا اب کس سے شکایت کرتا؟ رادھا کی محبت میں اندھا ہو کر میں نے اس نیک انسان کی نیت پربھی شک کیا تھا۔ میرے سینے سے ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی۔
’’اوہو۔۔۔بہت نراش ہو رہا ہے ۔۔۔کیا ہوا؟ دیکھ کیسے بندی بنا میرے چرنوں میں پڑا ہے؟ تجھ میں تو اتنی شکتی بھی نہیں ہے اپنے شریر کو اپنی اچھا کے انوسار ہلا سکے‘‘ وہ مسلسل میرا مزاق اڑاتا رہا۔
تکلیف کی شدت سے میرے منہ سے کراہیں نکل رہی تھیں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں کتنی دیر بے ہوش رہا۔ ایک منٹ ایک گھنٹہ یا ایک رات۔ کمرے میں روشنی تھی لیکن اس کا مخرج نظر نہ آرہا تھا۔ ہر چیز ویسے ہی تھی سوائے اس کے کہ میں اب کھڑا ہونے کے بجائے زمین پر پڑا تھا اور میرا دشمن وہ جہنمی ڈھانچہ میرے سامنے چارپائی پر بڑے کروفرسے نیم دراز تھا۔ اذیت میری برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے کراہیں نکل رہی تھیں۔
’’بس بہت ہو چکا۔۔۔اب تیرا انتم سمے(آخری وقت)آگیا ہے یدی کوئی آشا تیرے من میں کلبلا رہی ہے توبتامیں تجھے جیون بھکشا کے سوا سب کچھ دان کر سکتا ہوں‘ وہ بڑے غرور سے بولا۔
میں کیا جواب دیتا، بے بسی سے پڑا رہا۔ وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا پھر اٹھ کر میرے پاس آگیا۔ میرے سر پرکھڑے ہو کر اسنے ایک بار پھر کچھ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ میرا سانس گھٹنے لگا۔ کوئی نادیدہ ہاتھ میرا گلا دبا رہے تھے۔ بظاہر وہ مجھ سے گز بھر کے فاصلے پر تھا لیکن اپنے جادوکے زور سے وہ کچھ کر رہا تھا۔ میری آنکھوں کے گرد اندھیرا چھانے لگا۔ شاید میرا آخری وقت آگیا تھا۔ آنکھوں کے سامنے بچوں اور صائمہ کے چہرے گھومنے لگے۔ بے بسی کے احساس سے میرا دل ڈوبنے لگا۔
اچانک دروازہ ایک دھماکے سے کھلا۔ کالی داس جو آنکھیں بند کئے کچھ پڑھ رہ تھا اچھل پڑا۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ میں چونکہ دروازے کے سامنے زمین پر پڑا تھا اس لیے گردن گھمائے بغیر دروازے کو دیکھ سکتا تھا جس کے بیچوں بیچ ملنگ کھڑا تھا۔ وہی ملنگ جس نے کل مجھے بس کے خوفناک حادثے سے بچایا تھا۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ملنگ کے چہرے پر جلال چھایا ہوا تھا۔ وہ لال انگارہ قہر نظروں سے کالی داس کو گھور رہا تھا۔ مجھے کالی داس کے چہرے پر خوف نظر آیا۔ ملنگ کے لب ہلے اور کمرے میں اس کی پاٹ دار آواز گونجی۔
’’شیطان مردود! تیرا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ تو ہمارے علاقے میں آکر ایسی جرات کرے‘‘ کالی داس کی حالت میں واضح تبدیلی آئی تھی۔ اب وہ بری طرح بد حواس نظر آرہا تھا۔ اس کے ہونٹ ساکت ہو چکے تھے۔ وہ کسی ایسے چوہے کی مانند جسے بلی نے کونے میں گھیر لیا ہو بے بس نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ ملنگ نے میری طرف دیکھا پھر اس کی نظر جیسے ہی میرے پیٹ پر پڑی اسکے ہونٹ سکڑ گئے۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا اور میرے قریب آگیا۔ میری شرٹ ہٹا کر غور سے میرے پیٹ پر پڑے زحم کو دیکھا پھر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر تھوک ڈال کر میرے پیٹ پر مل دیا۔ جیسے کسی نے میرے زخم پر مرچیں چھڑک دی ہوں۔ میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ کالی داس نے جب ملنگ کو میری طرف متوجہ دیکھا تو ایک زقند بھری اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ ملنگ بجلی کی سی تیزی سے مڑا لیکن کالی داس اس پر سبقت لے گیا تھا۔ ملنگ بھی ہوا کے بگولے کی مانند اس کے پیچھے لپکا۔ میں کمرے میں تنہا رہ گیا۔ تکلیف اب بھی محسوس ہو رہی تھی لیکن اس میں کمی آگئی تھی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے میرا جسم جکڑن سے آزاد ہوگیا میں جسم کو حرکت دے سکتا ہوں۔ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سب سے پہلے میں نے اپنے پیٹ پر نظر ڈالی۔ شرٹ میں کافی بڑا سوراخ بن چکا تھا۔ میں نے جلدی سے شرٹ ہٹا کر دیکھا میرے پیٹ پر ناف کے قریب بڑا سا چھالا بنا ہوا تھا۔ جیسے جلنے سے بنتا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے ہاتھ لگایا وہ پھٹ گیا۔ ایک بار پھر تکلیف نے مجھے کراہنے پر مجبور کر دیا۔ میں ہمت کرکے اٹھ بیٹھا۔ کمرے میں وہی مدہم بلب روشن تھا جو میں نے اندر آتے وقت دیکھا تھا۔ کالی داس اور ملنگ دونوں غائب ہو چکے تھے۔ ہر سو سکوت مرگ چھایا ہوا تھا۔ میں لڑکھڑاتا ہوا پہلے کمرے، پھر اس منحوس گھر سے باہر آگیا۔ اب سڑک تک جانے کا مسئلہ تھا۔ مجھے زبردست نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ بہرطور یہ فاصلہ تو طے کرنا ہی تھا۔ میں کسی نہ کسی طرح گرتا پڑتا سڑک تک پہنچ گیا۔ اس کام میں کافی وقت لگ گیا۔ اس حالت میں جبکہ میری گاڑی بھی خراب ہو چکی ہے میں کیسے گھر جاؤں گا؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں گونج رہا تھا۔ میں نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور شکر ادا کیا کہ گاڑی کی چابی موجود تھی۔ دروازہ کھول کر میں نے خود کو سیٹ پر گرا دیا۔ کچھ دیر گہری گہری سانسیں لینے کے بعد میں نے چابی کو اگنیشن سوئچ میں لگا کر کوشش کی گاڑی فوراً سٹارٹ ہوگئی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ نظر گاڑی میں لگی گھڑی پر پڑی تو میں بری طرح چونک گیا۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ میں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ زخم کے مقام پر درد اب بھی ہو رہا تھا لیکن اس کی شدت میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ جیسے ہی میں نے گھر پہنچ کر ہارن بجایا۔ صائمہ نے فوراً گیٹ کھول دیا شاید وہ برآمدے میں ہی کھڑی تھی۔ میں گاڑی پورچ میں روک نیچے اترا اتنے میں وہ گیٹ بند کرکے بھاگ کر میری پاس آچکی تھی۔ میں پیٹ ہر ہاتھ رکھ کر نیچے اترا میری حالت دیکھ کر وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔
’’فاروق! کیا ہوا آ۔۔۔آ۔۔۔آپ کی حالت تو کافی خراب ہے۔‘‘ اس نے میرے سراپا پر نظر ڈالی۔
’’کچھ نہیں ایک معمولی سا حادثہ ہوگیا تھا‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یا اللہ خیر‘‘ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا
’’آپ بتاتے کیوں نہیں کیا حادثہ ہوا؟‘‘ اس نے مجھے سہارا دیا۔
میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں کوئی سریس زخم نہیں لگا۔‘‘ میں اس کے سہارے چلتا ہوا اندر آگیا۔ اس کے بعد اس نے کوئی سوال نہ کیا۔ بیڈ روم میں پہنچ کر میں بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے جلدی سے میرے جوتے اتار دیے۔
’’آپ آرام سے لیٹ جائیں‘‘ اس نے پیار سے کہا۔ جیسے ہی اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
’’ہائے اللہ ! آپ کے ماتھے پر بہت بڑا زخم لگا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اس کی نرگسی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر بھاگ کر لاؤنج سے ڈریسنگ کا سامان لے آئی۔ اس دوران میں شرٹ اتار کر لیٹ چکا تھا۔ میرے جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھی۔ گرنے کی وجہ سے ماتھے پر شدید چوٹ آئی تھی۔ اس وقت تو پیٹ کی تکلیف اتنی شدید تھی کہ کسی اور طرف دھیان ہی نہ گیا تھا۔ صائمہ نے جلدی سے زخم صاف کرکے دوا لگائی اور ڈریسنگ کر دی۔ پھر میرے پیٹ پر نظر پڑی تو حیران رہ گئی۔ ’’اس نے اٹھ کر بڑی لائٹ جلائی اور غور سے دیکھنے لگی۔
’’فاروق! آپ بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ کیا ہوا ہے؟‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔
’’اس زخم پر بھی دوا لگا دو پھر بتاتا ہوں‘‘ میرا ذہن مسلسل اس سوچ میں مصروف تھا کہ صائمہ کو کیا بتاؤں۔ میں اسے اصل بات نہ بتانا چاہتا تھا خومخواہ وہ پریشان ہوتی۔
میں جس قسم کے حالات میں گھر چکا تھا اس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ صائمہ خاموشی سے زخم پر کوئی مرہم لگا رہی تھی۔ وہ بار بار میرے چہرے کی طرف دیکھتی کہ مجھے تکلیف تو نہیں ہو رہی۔
’’اب ایک کپ چائے پلا دو تو بڑی مہربانی ہوگی‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے مسکراتے دیکھ کر اس نے بھیگی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔
’’نہیں پہلے آپ بتائیں یہ کیا ہوا؟‘‘
’’راستے میں گاڑی بند ہوگئی۔ میں نے دیکھا تو بیٹری کی چارجنگ میں کوئی گڑ بڑ تھی۔ اترکر چیک کیا تو اسی میں پانی کی ایک بوند بھی نہ تھی۔ گاڑی وہی کھڑی کرکے میں نے کچھ دور ایک دوکان سے تیزاب خریدا تاکہ بیٹری میں ڈال سکوں۔ بوتل کھولتے ہوئے وہ میرے اوپر گر گیا۔ تیزی سے پیچھے ہٹا تو پاؤں رپٹ گیا اور میں سڑک کے کنارے موجود گڑھے میں گر گیا۔ نیچے شاید کوئی پتھر پڑا تھا میرا سر اس پر جا لگا جس کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگیا۔کتنی دیر بے ہوش رہا یہ تو مجھے معلوم نہ ہو سکا لیکن اندازہ ہے کہ چار پانچ گھنٹے تو گزر گئے ہوں گے۔‘‘ میں نے کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے اسے ایک کہانی سنا دی۔
’’ارے تین بج رہے ہیں‘‘ میں نے حیران ہونے کی اداکاری کی۔وہ حیرت سے منہ کھولے میری بات سن رہی تھی۔
’’خدا کا شکر ہے اس نے آپ کی حفاظت کی ‘‘ اس نے اوپر دیکھتے ہوئے شکر ادا کیا۔لیکن کیا وہ جگہ اتنی ہی سنسان تھی کہ کوئی بھی نہ تھا اور کس قسم کا گڑھا تھا جو سڑک کے کنارے بنا ہو اتھا۔
’’خدا برباد کرے حکمرانوں کو سب کچھ خود کھا جاتے ہیں ملک پر تو کچھ لگاتے ہی نہیں‘‘ وہ عورتوں کے مخصوص انداز میں انتظامیہ کو کوسنے لگی۔
میں نے شکر کیا کہ اس نے میری بے سروپا کہانی پر یقین کر لای تھا۔ دراصل مجھے بخیریت دیکھ کر اس نے اور کچھ نہ سوچا۔
’’میں چائے اور درد سے آرام کے لیے دوا لاتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ جلدی سے کچن کی طرف چلی گئی۔ میرا ذہن ایک بار پھر گزرے واقعہ کی طرف چلا گیا۔ بد بخت کالی داس بہت کمینہ خصلت ثابت ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے اور رادھا سے معافی مانگ کر جان بچالی تھی لیکن بدبخت موقع کی تاک میں تھا۔ رادھا کیوں نہیں آئی؟ میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال چکرا رہا تھا۔ اگر آج ملنگ میری مدد نہ کرتا تو شاید کالی داس اپنے دل کی تمام حرستیں نکال کر دم لیتا۔
’’کہیں کالی داس نے رادھا کو۔۔۔‘‘ میرے ذہن میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔
’’نہیں۔۔۔نہیں کالی داس بے شک کسی طرح اسے وقتی طور پر روکنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن اب ایسا بھی نہ تھا کہ وہ رادھا کو نقصان پہنچا سکتا۔
’’یہ سب کچھ اسی رادھا کی وجہ سے ہی تو ہو رہا ہے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔ وہ میرے پیچھے پڑی تھی اور کالی داس جیسے مردود اسے حاصل کرنے کے لیے میرے جا رہے تھے۔ میرا دل رادھا کی طرف سے بدگمان ہو چکا تھا۔ جس طرح آج وہ کسی وجہ سے نہ پہنچ سکی تھی اسی طرح مصیبت کے کسی بھی گھڑی میں اسکا غائب ہونا ممکن تھا۔
’’یہ لیں دوا۔۔۔چائے کے ساتھ کھا لیں انشاء اللہ آرام آجائے گا۔‘‘ صائمہ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ دوا کھانے کے بعد میں نے گرما گرم چائے کی پیالی پی جس سے مجھے کافی افاقہ محسوس ہوا۔ ہلنے جلنے کی صورت میں پیٹ کا زخم تکلیف دینے لگتا۔ صائمہ میرے پاس بیٹھی میری ٹانگیں دباتی رہی۔ وفاکی اس پتلی نے اطاعت گزاربیوی ہونے کا حق ہر لمحہ ادا کیا تھا۔ میں اس کا مجرم تھا اس کی وفاؤں کا جواب بے وفائی سے دے رہا تھا شاید اسی لئے میں ہر وقت مشکلات میں گھرا رہتا۔
چوٹ کی وجہ سے مجھے وقتی طورپر بخار ہوگیا تھا اس لیے ایک دن کی چھٹی لینا پڑی۔ دوسرے دن بینک جا کر میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا اور اسے اپنے اس دن کے رویے کی معذرت چاہی۔
’’جناب عالی! کیوں شرمندہ کرتے ہیں‘‘ وہ خجل ہوگیا۔ میرے ذہن سے بوجھ ہٹ گیا۔ بچوں کو سکول سے لانے کے بعد میں نے باقی وقت گھر پر گزارا۔ صائمہ میرا ہر طرح خیال رکھ رہی تھی۔ رادھا ابھی تک نہ آئی تھی۔ اب مجھے اس کی کچھ خاص پرواہ نہ رہی تھی۔ میں اپنی دنیا میں مست ہوگیا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ صائمہ اب بالکل مطمئن ہوچکی تھی۔ اس دوران رادھا کا ذکر تک ہمارے درمیان نہ ہوا۔ دوسرے دن اتوار تھا میں اور صائمہ رات دیر تک جاگ کر باتیں کرتے رہے پھر سو گئے۔ رات کا جانے کونسا پہر تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔
’’پریم‘‘ میرے کانوں میں رادھا کی مدہم سرگوشی ابھری۔ میں بری طرح چونک گیا۔
’’پریم!یہ میں ہوں تمری رادھا‘‘ اس بار اس کی واضح آواز میرے کانوں میں آئی۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میں تو سمجھ رہا تھا اس خوبصورت بلا سے میری جان چھوٹ گئی ہے لیکن وہ ایک بار پھر آگئی تھی۔
’’موہن!‘‘ اس بار کی سنجیدہ آواز آئی۔
’’کیا تم میری بات نہیں سن رہے؟‘‘
’’سن رہا ہوں‘‘ میں نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔
’’کیا تم تھوڑے سمے کے لئے باہر آسکتے ہو؟‘‘ اس نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
’’میں نے ایک نظر صائمہ کی طرف دیکھا وہ بے خبر سو رہی تھی۔ اس کے گھنے ملائم بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے۔
’’جانتی ہوں مجھ ابھاگن سے ناراج ہو پرنتو اس میں میرا کوئی دوش نہیں۔‘‘
’’ہاں سارا قصور تو میرا ہے‘‘ میں نے جل کر کہا۔
’’کیا تم اپنی داسی کو کچھ کہنے کا اوسرنہیں دو گے؟‘‘وہ مسلسل معافی مانگتی رہی۔
’’اک پل باہر آجاؤ یدی اسکیک بعد بھی تم ناراج رہے تو میں چلی جاؤں گی، میری اتنی سی بنتی مان لو پریم!‘‘ اسکی سسکی نما سرگوشی سنائی دی۔
’’میں آہستہ سے اٹھا دراز سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور گرم چادر اوڑھ کر باہر نکل آیا۔ آخری تاریخوں کا چاند اپنی زرد روشنی پھیلانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ آہستہ سے کوریڈور کا دروازہ بند کرکے برآمدے میں آگیا۔ لان میں کوئی نہ تھا۔ میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں وہ مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ ایک بار پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ جب رادھا نے مجھے باہر بلایا تھا لیکن اس کی بجائے محمد شریف موجود تھا۔ میں آہستہ سے چلتا ہوا لان میں آگیا۔ ماحول سردی سے ٹھٹھرا ہوا تھا۔
’’رادھا‘‘ باہر آکرمیں نے پکارا۔
’’پریم‘‘ میرے بالکل پیچھے رادھا کی خمار آلود آواز آئی۔ میں نے تیزی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔وہ سراپا ناز میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ سبز رنگ کی ساڑھی میں اس کا کندن بدن دمک رہاتھا۔ ماتھے پر لگی تلک کسی ہیرے کی طرح چمک رہی تھی۔ بڑی بڑی غزالی آنکھوں میں سارے جہان کا خمار بھرا ہوا تھا۔ آنکھیں کیا تھیں شراب خانے تھے۔ میری نظر اٹھی تو جھکنا بھول گئی۔ وہ سب عہدو پیمان جو میں نے خود سے کیے تھے اسکے حسن کے سیلاب کے آگے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ اس کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی مہک مجھے دیوانہ بنا رہی تھی۔ آج وہ پوری طرح مسلح ہو کر آئی تھی۔
ادھر حال یہ تھا کہ جنگ سے پہلے میرے دل نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ میں بے خود سا اسے دیکھا تھا۔
’’پریتم! وہ لپک کرآگے بڑھی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ ایک خواب کی سی کیفیت تھی میری۔ اسکا نرم و نازک وجود مجھ میں سمائے جا رہا تھا۔ اسکی خود سپردگی نے مجھے زیادہ دیر ٹھہرنے نہ دیا۔ میری بانہوں کا گھیرا خود بخود اس کے گرد تنگ ہوتا گیا۔ اسکا بدن کسی بھٹی کی طرح تپ رہا تھا۔ سانسوں میں جیسے بھونچال آیا ہوا تھا۔ وہ خود کو میرے اندر جذب کرنا چاہتی تھی۔ نہ جانے اس کے حسن میں ایسی کیا بات تھی کہ میں سب کچھ بھول گیا۔’’پریم۔۔۔‘‘ میرے کان کے پاس اس کی خمار میں ڈوبی سرگوشی ابھری۔
’’رادھا۔۔۔‘‘ میری آواز بھی بوجھل ہو چکی تھی۔
’’پریم!۔۔۔پریم! میرے میت! کتنا تڑپی ہوں میں تم سے دور رہ کر ‘‘ وہ میرے چہرے سے اپنا نرم و ملائم چہرہ رگڑتے ہوئے بولی۔ اس کی معطر سانسیں میرے وجود کو مہکائے دے رہی تھی۔ اچانک ہر سو گھپ اندھیرا چھا گیا۔ میں بری طرح چونک گیا۔
’’نہ پریتم! یہ میں نے کیا ہے‘‘ اس نے مجھے بھینچ لیا۔
’’کیوں؟‘‘ میں جانتے بھی بھی انجان بن گیا۔
’’جب دو پریمیوں کا ملن ہوتا ہے تو دھرتی کی ہر شے سب کچھ بھول کر انہیں دیکھنے لگتی ہے اورمیں نہیں چاہتی کہ میرے سندر پریمی کو کوئی دوجا دیکھے‘‘ اس نے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے وہیں نرم نرم گھاس پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ اب سردی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ ہم شبنم سے بھیگی گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ بیٹھی ہوئی تھی اور میں اس کی ریشمی گودمیں سر رکھے دراز تھا۔
’’رادھا تم توکہتی تھیں ہمارا جسمانی ملاپ ابھی ممکن نہیں پھر آج۔۔۔کیا وہ پابندی ختم ہوگئی؟‘‘ میں نے اسکی زلفوں کی مہک اپنے اندر اتاری۔
’’چھوڑو یہ باتیں دیکھو سمے کتنا سندر ہے۔۔۔چندر ما میری گود میں ہے‘‘ وہ میرے اوپر جھک آئی۔ اس کی سانسوں کی گرمی مجھے پگھلا رہی تھی۔ دم بدم اس اسکا چہرہ میرے چہرے کے قریب آرہا تھا۔ قریب۔۔۔قریب۔۔۔اور قریب حتیٰ کہ ہمارے وجود ایک ہوگئے۔ اس کے انداز میں جو وارفتگی تھی اسے شاید میں زندگی بھر نہ بھلا سکونَ کہاں تک اس کی بے تابیوں کی داستان رقم کروں؟ نہ قلم میں تاب ہے نہ میرے اندر اتنی صلاحیت کہ میں اس چاندنی رات کی داستان بیان کر سکوں۔۔۔جب ہم دونوں ہوش کی دنیا میں واپس آئے تو مجھے سب کچھ بڑا حسین نظر آرہا تھا۔ صبح کے قریب جب میں دبے پاؤں واپس بیڈ روم میں داخل ہوا تو صائمہ حسب معمول محو خواب تھی۔ اسکے چہرے پر نظر پڑتے ہی خود بخود جھک گئی۔ بستر پر گرا تو میری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔
صبح صائمہ کے کئی بار جگانے سے میری آنکھ کھلی۔میری نظر اس کے چہرے پر پڑی جو کسی نو شگفتہ پھول کی طرح پاکیزہ لگ رہا تھا۔
رات کا خمار ابھی تک میری آنکھوں میں چھایا ہوا تھا۔ رادھا نے مجھے کچھ پوچھنے۔۔۔جاننے یا گلے شکوے کرنے کا موقع ہی نہ دیاتھا۔ میں اس سے اتنے دن کی غیر حاضری کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا تھا۔ بینک پہنچنے کے بعد جیسے ہی میں نے اپنے کیبن کا دروازہ کھولا میرا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ میری کرسی پر وہ فتنہ گر جلوہ افروز تھی۔ جی ہاں رادھا۔۔۔ ساڑھی میں اسکا نکھرا نکھرا شباب قیامت ڈھا رہا تھا۔ دن کی روشنی میں وہ اور زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ اس کے حسن کے بارے میں کیا کہوں وہ تو پرستان سے آئی کوئی پری تھی۔ ہونٹوں پر ملکوتی مسکراہٹ لیے وہ خمار آلود نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے پیچھے مڑ کر سٹاف کی طرف دیکھا سب اپنے کام میں منہمک تھے۔
’’سجنا! تم بھول گئے میں نے کہاتھا تمرے بن مجھے کوئی دیکھ سکتا ہے نہ میری آواج سن سکتا ہے۔‘‘ رادھا کی مدھر آواز میرے کان میں پڑی۔ میں نے دروازہ بند کر دیا اور بے تابی سے اسکی طرف بڑھا میں چاہتا تھا اسے اپنی بانہوں میں بھرلوںَ اسکی مدھر ہنسی کمرے میں جلترنگ بجاگئی۔
’’پریم! یہ ٹھیک ہے میں کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔۔۔یدی تم نے مجھے ہر دے(سینے) سے لگایا توباہر بیٹھے منش کیا وچارکریں گے کہ تم کسے اپنی بانہوں میں بھینچے کھڑے ہو؟‘‘
مجھے اپنی بے خود پر ہنسی آگئی۔ وہ آہستہ سے کرسی سے اٹھی اور باد صبا کی جھونکنے کی طرح میرے پاس آگئی۔
’’برا جیئے مہاراج!‘‘ اسنے کسی کنیز کی طرح جھک کر مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہنا۔
’’شکریہ‘‘ میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی۔ وہ میرے سامنے کھڑی تھی لیکن کسی اور کو نظر نہ آرہی تھ۔ میں بار بار کنکھیوں سے باہر کی جانب دیکھ رہا تھا۔
’’میری بات پروشواس نہیں ہے ساجن!؟‘‘ اس نے میرے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔
’’یقین تو ہے لیکن دیکھو نا کتنا عجیب لگ رہا ہے تم موجود ہو لیکن میرے علاوہ کوئی اور تمہیں دیکھ نہیں سکتا‘‘ میں حیران تھا’’تم بھی بیٹھو نا‘‘ میں نے سامنے والی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کوکہا۔
’’داسیاں اپنے دیوتا کے چرنوں میں بھلی لگتی ہیں‘‘ وہ ایک جذب کے عالم میں بولی۔ آج مجھے اتنا ہوش نہ تھا کہ دیوتا کہنے پر اسے سر زنش کرتا۔ اس پر رات مجھے اس کی شدتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ مجھے بے حد چاہتی تھی۔
’’میرا من کتنا شانت ہے آج۔۔۔تم وچاربھی نہیں کر سکتے۔‘‘
’’کیوں‘‘ میں نے اسکی طرف دیکھا۔
’’تمنے وہ کڑا کھتم کروا کر جوا پکارمجھ پر کیا میں اس کے لئے تمہیں دھن وادکہتی ہوں‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ رات وہ میرے جسم سے لپٹ گئی تھی۔ میں نے پوچھا بھی تھا یہ سب کیسے ممکن ہوا۔۔۔لیکن اسکی بے تابیوں کے آگے سب کچھ گم ہوگیا تھا۔
’’ہائیں۔۔۔؟‘‘میں نے حیرت سے کہا۔
’’میں نے توکوئی کڑا ختم نہیں کروایا لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟‘‘ میں خود بھی حیران رہ گیا تھا۔ وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’تمنے نہیں کروایا تو پھر کیسے کھتم ہوگیا؟‘‘
’’میں نے توصرف محمد شریف سے کہہ کرگھر اور دفترکا حصار ختم کروایا تھا‘‘ میں نے پر خیال انداز سے کہا۔
’’کسی نے بھی کیا بھلا کیا‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’کہیں تم نے خود تو یہ سب کچھ۔۔۔‘‘ میں نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا۔ اسکی مدہر ہنسی کمرے میں جلترنگ بجا گئی۔
’’ہاں تمہیں تو اپنے کام سے مطلب ہے چاہے میں مر ہی نہ جاتا‘‘ آخر گلہ میرے ہونٹوں پر آہی گیا۔
’’بھگوان نہ کرے‘‘ اس نے جلدی سے میرے ہونٹوں پر اپنا نازک ہاتھ رکھ دیا۔’’موہن! یہ تم نے کیا کہہ دیا؟‘‘ اسنے دکھ بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔
’’تمہیں پتاہے تمہارے جانے کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ اس دن کی اذیت یاد آتے ہی میرا لہجہ تلخ ہوگیا۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ اس کی سوالیہ نظریں مجھ پر ٹکی تھیں۔ میں اسے کالی داس اور ملنگ کے بارے میں بتانے لگا۔ ابھی میں نے بات شروع کی ہی تھی کہ اس نے مجھے روک لیا۔
’’بس کرو موہن!‘‘ اس کی منہ سے غراہٹ نکلی۔ آنکھوں میں آگ کے الاؤ بھڑک اٹھے۔
’’کالی نے داس اپنی مرتیو کا پربند کھود گیا ہے‘‘ اس کا لہجہ اس قدر سرد تھا کہ میرا جسم کپکپاگیا۔ اسکا حسین چہرہ آگ کی طرح تپ گیا تھا۔
’’کالی داس! اب تجھے میرے شراپ سے دیوتا بھی نہ بچائیں گے‘‘ اتناکہہ کر وہ لمحوں میں میرے سامنے سے غائب ہوگئی۔
’’رادھا۔۔۔!‘‘ میں نے جلدی سے پکارا۔ لیکن کمرے کا سکوت بتا رہا تھا وہ جا چکی ہے۔ مجھے افسوس سا ہوا کہ میں نے اس وقت کیوں کالی داس کا ذکر چھیڑ دیا تھا۔ لیکن جوکچھ اس مردودنے میرے ساتھ کیا تھا میں اسے کسی طور بھول نہیں سکتا تھا۔ میری شدید ترین خواہش تھی کہ میں اس حرامزادے کو کتے کی موت ماروں۔ اگر اس دن ملنگ میری مدد نہ کرتا تو آج میں زمین کے اوپرہونے کے بجائے اندر ہوتا۔
کچھ دیر بعد وہ یکدم ظاہر ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ یوں میرے سامنے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کے حسین چہرے پر غصے اور جھنجھلاہٹ کے تاثرات تھے۔
’’وہ اپرادھی! منڈل میں چلا گیا ہے‘‘ وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولی۔
’’کہاں چلا گیاہے؟‘‘ میں کچھ نہ سمجھا۔
’’منڈل میں‘‘ اس کا چہرہ آگ کی طرح تپ رہا تھا۔
’’منڈل کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ پاپی ! جانتاتھاکہ اسے رادھاکے شراپ سے اب کوئی نہیں بچا سکتا اسی کارن وہ ایک دائرہ کھینچ کر اس میں بیٹھ گیا ہے جس میں اسے شرن (پناہ) مل گئی ہے‘‘ اس نے تفصیل سے بتایا۔
’’تم چنتانہ کرو موہن! وہ کب تک وہاں بیٹھا رہے گا جیسے ہی باہر آیا میں اس کا بلیدان تمرے چرنوں میں کروں گا‘‘۔
پھر کچھ سوچ کر بولی’’موہن !کیا تم مجھے وہ استھان دکھا سکتے ہو جہاں وہ پاپی تمہیں لے کر گیاتھا؟‘‘
’’میں یہاں کے راستوں سے اتنا واقف نہیں ہوں لیکن تمہیں وہاں تک لے جا سکتا ہوں جہاں میری گاڑی خراب ہوئی تھی یا کی گئی تھی‘‘ میرے خیال میں گاڑی کے خراب ہونے میں کالی داس کاہ اتھ تھا۔
’’تمراوچار گلط نہیں موہن! سب کچھ اسی دھشٹ نے کیا تھا‘‘ اس کا غصہ کسی طور پر کم ہونے میں نہ آرہا تھا۔
’’چھوڑو رادھا!ً جب وہ لعنتی باہر آئے گا تو دیکھ لیں گے‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا۔
’’نہیں موہن! اس کا اپرادھ کچھ کم نہیں ہے ہو سکتا ہے اس استھان پرجا کر میں اسے باہر لانے میں سپھل ہوجاؤں۔‘‘ رادھا نے اصرار کیا۔
’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ ابھی بچوں کو سکول سے لانے میں کافی وقت ہے ہم جلدی سے وہاں ہو آتے ہیں‘‘ میں نے گاڑی کی چابیاں اٹھاتے ہوئے کہا۔ میں باہرجانے لگا تو وہ بھی میرے ساتھ چل پڑی ۔
’’تم اسی طرح جاؤ گی؟‘‘
’’پھر کس طرح جاؤں؟‘‘ وہ حیران رہ گئی۔
میرا مطلب۔۔۔اچھا ٹھیک ہے‘‘ اچانک مجھے یاد آیا کہ وہ کسی اور کو تو نظر ہی نہیں آتی میں بار بار یہ بات بھول جاتا تھا بات تھی بھی ناقابل یقین۔ ہم دونوں کیبن سے باہر آئے۔ میں نے عمران کو کچھ ہدایات دیں ار اس کے ساتھ باہر آگیا۔
Zabardast tehreer hy… 10 no qist kesy ae gi