ایک نہایت ہی امیر نیا شادی شدہ جوڑا، جو غالبا مصری نزاد ہے، اپنی نکاح کی محفل بعد دعوت ولیمہ کے فوٹو سیشن میں مشغول تھا کہ دولہا کی والدہ جو نہایت غریب تھی اور غالبا الگ رہتی تھی، پارٹی میں آجاتی ہے اور اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے اسٹیج پر پہنچ جاتی ہے۔ بیٹا اس سے گلے مل رہا ہوتا ہے لیکن ماڈرن بیوی کو فوٹو سیشن کے دوران اپنے شوہر کا اس کی ماں سے یوں گلے ملنا ناگوار گزرتا ہے. وہ اسے اشارہ سے روکتی ہے اور فوٹو سیشن جاری رہنے کا اشارہ کرتی ہے۔ نئی نویلی دلہن کے اس رویہ پر وہ اپنی ماں کو اسٹیج سے اتر کر اپنی بہنوں کے پاس جاکر بیٹھنے کو کہتا ہے، اس کے کہنے کے انداز سے شاید ماں کا دل بھر آتا ہے اور وہ نہایت خاموشی کے ساتھ غمگین اسٹیج سے اتر کر جانے لگتی ہے۔ انہی لمحات میں دولہا کے دل و دماغ میں بچپن سے لے کر بڑے ہوتے تک
کا زمانہ تازہ ہوجاتا ہے، اسے ماں کی پرورش، لاڈ وپیار و ممتا یاد آتی ہے اور ماضی کے ان لمحات میں اسے ماں کی شفقت و محبت کے مقابلہ میں نوبیاہتا بیوی کی ساس سے بیزاری بری معلوم ہوجاتی ہے۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے پارٹی میں جاری نغمہ سرائی و ساز و ترنگ کو بند کرنے کا اشارہ کرتا ہے اور مجمع کو مخاطب کرتا ہے اور اسٹیج سیجاتے ہوئے اپنی ماں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ“میں اپنی ماں کو بیچنا چاہتا ہوں، آج کی اس محفل میں کوئی ہے اس کاخریدار؟”مجمع پر سکوت طاری ہوجاتا ہے۔ سب حیران و پریشان ہیں کہ کیا ماجرا ہے، خود اس کی ماں اور اس کی نئی نویلی دلہن حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ کچھ لمحوں بعد وہ اسٹیج سے نیچے اترتا ہے، پراعتماد، نپے تلے قدموں سے وہ اپنی ماں کے قریب پہنچتا ہے اور کہتا ہے “نہیں ہے کوئی خریدار میری ماں کا؟ خیر کوئی بات نہیں!”یہ کہتا ہوا جھک کر اپنی ماں کا اکرام کرتا ہے اور اس کے قدموں کو چومتا ہے اور پھر کھڑے ہوکر کہتا ہے، “کوئی بات نہیں میں خود ہی اپنی ماں کو خرید لیتا ہوں اپنی نئی نویلی دلہن کے عوض میں!”اور ماں کو گلے لگا کر خراماں خراماں محفل سے نکل جاتا ہے۔ ایک دیگر پوسٹ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسی محفل میں ایک لڑکی کا باپ اسی محفل میں لڑکے کی اس قربانی سے متاثر ہوجاتا ہے اور اپنی بیٹی کا ہاتھ اسے تھما دیتا ہے. ہوسکتا ہے کہ یہ کسی عربی فلم کا کوئی منظر ہو یا حقیقتاً ظہور پزیر سچے واقعہ کی عکس بند فلم،
راقم الحروف کے، اس منظر کشی کو الفاظ میں پرونے کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ فی زمانہ اس جدت پسند تعلیم یافتہ ادوار میں، ہم میں سے ایسے کتنے ہیں؟ جو اپنی نئی نویلی، مالدار، پڑھی لکھی، حور مثل، بیوی کے نخروں کے سامنے ،خود کو پالنے پوسنے والی،خود بھوکا رہ کر اسے کھلانے والی ، اس کے تر کیئے بستر کے حصہ پر خود کو سرکاکر، سوکھے حصہ پر اسے سلانے والی، گرتے پڑتے اسے لگنے والی ہلکی خراش پر بھی، اس کی نکلتی چیخ کے ساتھ، اسے اٹھاکر، گود میں لینے والی، ممتا کی ماری ماں کا دل دکھانے والے، کتنے کام ہم سے، جانے میں یا انجانے میں سرزد ہوجاتے ہیں، اس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ والدین کے ہم پر احسانوں کا بدلہ ساری زندگی، ان کی خدمت کرنے سے بھی جہاں ان کا حق ادا نہیں جاسکتا۔ وہیں پر جانے انجانے میں ان کے قلب و اذہان کو چوٹ پہنچاکر تو، اپنی عاقبت خراب ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔