ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے ستر سالہ میاں نواز شریف کی علالت کو سنجیدگی سے لیا جائے اور جہاں جس سے علاج میں آمادگی ظاہر کریں فوری منتقل کر دیا جائے۔ سیاسی انتقامی کارروائیوں کا دور اب ختم ہوجانا چاہئے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والے ایک دوسرے سے انتقام لیتے رہےمگر عمران خان تبدیلی، ریاست مدینہ اور نیا
پاکستان کا دعوی لے کر آئے ہیں۔ انہیں سابقہ حکومتوں جیسے اوچھے ہتھکنڈوں سے مختلف انداز سیاست اپنانا چاہئے۔ نواز شریف کی عمر اور بیماری کلثوم نواز کی طرح کوئی بری خبر کا سبب بن گئی تو سارا ملبہ عمران حکومت پر آ گرے گا۔ کرپشن اگر ثابت ہو تی ہے تو زرداری اور شریفوں سے مال نکلوایا جائے ورنہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی روائتی سیاست سے اجتناب کیا جائے۔ مال نکلوانے کی امید اک خواب ہے پھر کھال ادھیڑ نے کا فائدہ ؟زندگی بچانے کے لئے نواز شریف اب کس منہ سے لندن جایئں گے جہاں اُن کی اہلیہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ مالدار طبقہ پاکستان کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ یہاں کے معالج ان لوگوں کا مرض سمجھ سکیں۔ان لوگوں کا اصل مرض سیاست کی بقا ہوتا ہے۔ جیل میں جایئں تو ووٹ میں اضافہ ، بیمار ہو جایئں تو ووٹ میں اضافہ ، مر جایئں تو ان کی اگلی نسلوں کی چاندی۔ پاکستان میں تعزیت کے ووٹ سب پر بھاری ہوتے ہیں۔ بھٹو باپ بیٹی کی مثالیں سامنے ہیں۔ عمران حکومت بھی بخوبی جانتی ہے کہ نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو مسلم لیگ ن مزید مضبوط ہوجائے گی۔ موت کا وقت مقرر ہے اسے لندن امریکہ پاکستان کسی ملک کا علاج
نہیں ٹال سکتا مگر جواز الیکشن جتوا سکتاہے۔محکمہ داخلہ پنجاب نے نواز شریف کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں نواز شریف کوکسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانیکی پیشکش کی گئی ہے۔ مگر لگتا ہے نواز شریف نے اہلیہ کی جدائی کو دل پر لے لیا ہے۔ حالت بیماری میں بیگم کو لندن چھوڑ آنا نواز شریف کے لئے پچھتاوے کا باعث بن گیا ہے۔ آگے بیٹی کو بے نظیر بنانے کا ارمان انہیں جیل سے نکلنے نہیں دیتا۔ہر بیٹی کی نظر میں اس کا باپ صادق و امین ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں اس کے بے قصور معصوم باپ کو پھانسی دے دی گئی۔بے نظیر اور مریم یہ وہ دو سیاسی بیٹیاں ہیں جن کے باپ عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے؟بے نظیر اور مریم کا دکھ اب سانجھا ہو گیا ہے لیکن نواز شریف نے دیر کر دی۔بے نظیر بھٹو کے دکھوں کو نواز شریف پارٹی نے بری طرح اچھالا۔ اسے تڑپایا ستایا۔ وہ بھی کسی کی بیٹی تھی۔ہمیں آج بھی یاد ہے مشرف کا دور تھا۔ بے نظیر بھٹو ریاست اوہائیو میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے تشریف لائیں۔گوروں سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔دہشت گردی کے خلاف لیکچر کے دوران نواز شریف کے خلاف بھی بولیں۔
نواز حکومت کے زرداری اور بھٹو فیملی کے ساتھ ظلم و ستم کا ذکر کیا۔ لیکچر کے بعد سٹیج سے اتریں تو امریکی میڈیا نے گھیر لیا۔ ہمیں مشرقی لباس میں دیکھ کر مسکرا دیں اور ہجوم ہٹاتے ہوئے قریب بلایا اور کہا آپ پاکستانی لگتی ہیں۔ ہم نے نوائے وقت کا حوالہ دیا تو بولیں نواز شریف کے خلاف میری باتیں ناگوار محسوس ہوئی ہوں گی ؟ ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ہمارا محمد علی جناح کی مسلم لیگ سے تعلق ہے جو پورے پاکستان کا ہے آپ کا بھی۔ محترمہ نے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ” ہم ڈکٹیٹروں کے ظلم کے عادی ہو گئے ہیں لیکن جمہوریت کی آڑ میں نواز حکومت نے جو ظلم میرے شوہر پر کئے وہ کہیں سے جمہوریت نواز کہلانے کے حقدار نہیں “۔۔۔۔ماضی کے سیاسی دریچوں میں جھانکیں تو دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے مکافات عمل ابھی شروع ہوا ہے۔سیاست کے امتحان ابھی بہت باقی ہیں۔لیکن اب اور نہیں۔۔۔ ریاست مدینہ کے داعی کرپشن کی دولت نکلوایئں اور شریف خاندان کو لندن بھجوائیں۔سیاسی انتقامی کاروائیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ الٹا موت گلے پڑ جاتی ہے اور الیکشن میں کامیابی کا باعث بنتی ہیں۔ نواز شریف بھی مریم کا مستقبل
سوچ کر ہی جیل سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہو رہے۔ واللہ اعلم(تحریر: طیبہ ضیاء چیمہ)