ماتا ہری کا نام جاسوسی کی تاریخ میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے تو ایک رقاصہ تھی، مگر اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے لئے اپنے اس فن کے ذریعے جاسوسی کے میدان میں یادگار خدمات انجام دیں۔ مگر بالآخر وہ اتحادیوں کے ہتھے چڑھ گئی اور فرانسیسیوں نے اسے گولی کا نشانہ بناکر انجام کو پہنچادیا۔ماتا ہری کا کردار
جاسوسی کی دنیا میں ایک لیجنڈ اور سیکس سمبل کے طور پرآج بھی جانا جاتا ہے ۔ کچھ اسی نوعیت کی ایک بھارتی دوشیزہ سے ہمارا واسطہ پڑا اور اس کا کردار ہمارے ریکارڈ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ اسلام آباد میں دنیا کے متعدد سفارتخانوں نے اپنے عملے کے بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایمبیسی اسکول کھول رکھے ہیں۔ خاص طور پر ان ممالک نے جن کے عملے کی تعداد زیادہ ہے اور طالب علم بھی کافی تعداد میں ہیں۔ یہ سلسلہ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک میں موجود ہے اور بظاہر کسی حوالے سے بھی سفارتی آداب اور قواعد کے خلاف نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اسکولوں میں محض درس و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان اسکولوں کے عملے کے کئی ارکان کو تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں جاسوسی کے کام پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ یا تربیت یافتہ جاسوس اساتذہ کے ظاہری روپ میں ان اسکولوں میں تعینات کردیئے جاتے ہیں۔ یہ ایمبیسی اسکول دراصل سفارتخانے کی عمارت سے جدا ایک ایسے بیس baseکے طور پر استعمال ہوتے ہیں جہاں نہ صرف خفیہ سرگرمیوں کی نگرانی احسن طریقے پر ہوسکے بلکہ تخریب کاری اور دہشت
گردی کی کارروائیوں کے منصوبے بھی با آسانی عمل میں لائے جاسکیں۔ اساتذہ کے روپ میں تعینات کئے گئے خفیہ ایجنٹ ہمہ وقت میزبان ملک کے خلاف کسی بھی خفیہ کارروائی کے لئے تیار رہتے ہیں اور یہ اسکول ان ایجنٹوں کو مکمل تحفظ اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ خفیہ ایجنٹ اسی طرح کے دوسرے اداروں مثلا ائیر لائنز کے دفاتر ، ہوٹلوں، لینگویج سینٹرز ، ایوان ہائے ثقافت و دوستی اور مراکز اطلاعات میں بھی تعینات کئے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی معمول کی چیکنگ کے دوران اسلام آباد میں قائم انڈین ایمبیسی اسکول کی ایک مس وینا کی سرگرمیاں کچھ مشکوک نظر آئیں۔ مسلسل نگرانی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں تو وہ کم حصہ لیتی ہے مگر اکثر اوقات شکار کی تلاش میں اسلام آباد کے چند گھروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مس عینا کا بھارتی سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی اور ”را” کے فرسٹ سیکریٹری سے مستقل رابطہ ہے۔ یہ دونوں پاکستان کے دفاعی اور ایٹمی راز معلوم کرنے کے درپے تھے، اور بھارتی ماتا ہری ان کی ہدایات پر کام کرتی تھی۔ مس وینا کی عمر 25یا 26 سال کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ 18-19
سال کی بے ضرر اور معصوم سی لڑکی لگتی تھی ۔ ستواں ناک، کتابی چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، انتہائی متناسب جسم ، چال ڈھال میں ایک خاص قسم کا بانکپن، اور گفتگو کا مخصوص انداز، اس کے خطرناک ہتھیار تھے۔ اس کی خاموش نظریں بھی گہرائیوں تک سرایت کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک ہلکی سی مسکراہٹ تو رہتی لیکن اس کی نظروں میں ایک ایسی اداسی بھی دکھائی دیتی تھی جیسے صدیوں پرانا ایک محل اپنی لٹی ہوئی تابناکیوں ، خوشیوں اور روشنیوں کے لوٹ آنے کے کربناک انتظار میں ہو، جیسے وقت کے بے رحم ہاتھ لمحہ بہ لمحہ اے ریزہ ریزہ کر رہے ہوں یا جیسے اک تھکن سے چور چور مسافر جو اپنی منزل کا نام بھی بھول چکا ہو مگر پھر بھی ایک لامتناہی سفر پر ہو۔ مس وینا کا بدن اور روح بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ، گم سم کسی انجانی منزل کی تلاش میں رہتے۔ مزید معلومات کے لئے ہم نے ایک پاکستانی ہندو لڑکے کو انڈین ایمبیسی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ اس کی ماں نے ہماری ہدایات پر یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بے حد متفکر ہے اور وہ ان سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ
ہر دوسرے تیسرے روز اسکول جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مس وینا کے ساتھ دوستی استوار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی ان کی دوستی اسکول کی حدود سے نکل کر گھر اور مارکیٹ تک آگئی۔ وہ متواتر ایک دوسرے کو ملتیں ، شاپنگ اکٹھے کرتیں، سینما جاتیں اور اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر اکٹھے گھومنا پھرنا بھی ان کا معمول بن گیا۔ وینا اسی محترمہ کو شکارکرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی تھی اور یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ معصوم شکار خود اس کا شکاری ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس شک کی تصدیق ہوگئی کہ مس وینا کا اسکول کی تدریسی سرگرمیوں میں کوئی کردار نہیں۔ وہ بھارتی جاسوس ہے اور ہمہ وقت اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آوری میں ”مشن” کے لئے تیار رہتی ہے ۔ اب ہماری نظریں اس کی آمد و رفت اور روزمرہ کی مصروفیات پر مذکور ہوگئیں اور ہم اس انتظار میں تھے کہ وینا کے پھینکے ہوئے کانٹے میں کونسی ”پاکستانی مچھلی ” پھنستی ہے۔ ایک روز بھارتی ایمبیسی کی جانب سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا۔ یوں تو یہ ایک معمول کی بات تھی مگر سفارتخانے کے مہمانوں کی شناخت
اور ان کے بارے میں جاننا ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ ہوٹل سے ہمارے آدمی نے اطلاع دی کہ مس وینا بھارتی ڈیفنس اتاشی کی گاڑی میں سفارتخانے کے عملے کے ایک رکن مسٹر کھنہ کے ساتھ جو ”را” کی ٹیم کا ممبر بھی تھا، ہوٹل پہنچی ہے اور کھنہ ، وینا کو ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر لابی میں بیٹھا شاید کسی مہمان کا منتظر ہے۔ ہم نے ائیرپورٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی جہاز نہیں آرہا اور نہ ہی بھارتی سفارتخانے کی کوئی کار ائیرپورٹ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ ”مہمان” کوئی یہیں کا ہے ۔ ہم نے سیٹی بجادی اور ہماری ٹیم نے ضروری سازوسامان کے ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ چند لمحوں کے بعد پرویز نامی ایک پاکستانی نوجوان ، جس کے چہرے سے سراسیمگی اور خوف ٹپک رہا تھا ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا۔ مسٹر کھنہ نے آگے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور کہا’ ” آئیے پرویز صاحب ہم تو آپ کے دیر سے منتظر ہیں” اور اسے اس کمرے میں لے گیا، جہاں وینا آنے والے لمحوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔ وقت ضائع کئے بغیر ہمارے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کپڑے تبدیل کئے اور مختلف روپ
دھارکر اپنے اپنے ڈیوٹی کے مقام پر پہنچ گئے۔ توقع کے عین مطابق کمرے سے روم سروس کو انٹرکام پر چائے اور سینڈویچز کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارا تربیت یافتہ ”ویٹر” فوری طور پر چائے کی ٹرالی لے کر روانہ ہوگیا، جس میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب تھا۔ واپسی پر ”ویٹر” نے بتایا کہ وینا اپنے مہمان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے چین ہے مگر اس کا مہمان سہما ہوا اور شرمیلا سا ہے، جبکہ مسٹر کھنہ دلالوں کا روایتی کردار ادا کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ مس وینا اپنے مہمان کے تمام حواس پر قبضہ کرلے۔ بہر حال ہم ٹرالی میں لگے ٹرانسمیٹر کی مدد سے ان لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے اور اسے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد کھنہ کمرے سے باہر آگیا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس ایمبیسی چلاگیا ۔ اس کے چہرے کی بشاشت بتارہی تھی کہ شکار پنجے میں آچکا ہے اور چند ہی لمحوں میں وینا اس کا جھٹکا کر کے اس کے کباب بنالے گی۔ برحال مس وینا اور پرویز کی گفتگو رسمی تعارف تک ہی محدود رہی۔ پرویز کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور گھبرایا ہوا ہے۔ مگر وینا اس مہم کو سرکرنے کے
لئے اس پر تابڑ توڑ اور خطرناک حملے کر رہی تھی۔ وینا کے لئے اپنے اعلیٰ افسران پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کا شاید یہ بہترین موقع تھا اور وہ کسی صورت بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرانسمیٹر سے تیز سانسوں کی آواز آنے لگی اور بالآخر یہ تلاطم تھم گیا ۔ پرویز شاید ذبح ہوچکا تھا۔ پرویز تقریبا آدھ گھنٹہ کمرے میں رہا اور وینا کو اپنا ایڈریس لکھوا کر اور وصل کا ایک اور وعدہ لے کر نیچے آگیا، مگر اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی گھبراہٹ جوں کی توں ہے ۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اپنے ریسٹ ہاؤس لے گئے۔ ایک لمحے میں اس کے سارے حسین خواب منتشر ہوگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو وہ اپنی شناخت کرانے سے ہچکچارہا تھا۔ نتیجتاً ہم نے وینا کے ساتھ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ اسے سنائی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس نے بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس نے بتایا کہ ”میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں انجینئر ہوں او رکھنہ کے ساتھ میری ملاقات لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک بس میں ہوئی تھی۔
ہم بہت جلد دوست بن گئے اور کھنہ نے مجھے ایک خوبصورت ہندو لڑکی سے ملوانے کی پیشکش کی جسے میں ٹھکرانہ سکا۔” ہمارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی کہ بھارتی خفیہ اداروں نے چانکیا کی تعلیمات کے مطابق رنڈیوں سے جاسوسی کا کام لینے کو بھی اپنے کلچر کا حصہ بنا رکھا تھا۔ اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے پاس اور بہت سے راستے تھے۔ پہلے ہم نے سوچا کہ پرویز سے ڈبل ایجنٹ کا کام لیا جائے مگر بعد ازاں اس کی ملازمت کی حساس نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا تاہم اس واقعہ کی ایک رپورٹ اس کے متعلقہ محکمے کو بھجوادی گئی اور پرویز کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ بہر حال پرویز سے ملاقات کے بعد مس وینا ابھی ہوٹل کے کمرے میں موجود تھی۔ یا تو وہ کھنہ کا انتظار کرتی یا پھر ایمبیسی فون کرتی کہ ہوٹل میں میری ڈیوٹی پوری ہوگئی ہے اور مجھے آکر یہاں سے لے جایا جائے ۔ اب ہمارے پاس ہوٹل کا محاذ ہی تھا اور وقت بہت کم۔ وینا تک رسائی حاصل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ وہ ہمارے کسی بھی اہلکار کی کمرے میں موجودگی کی صورت میں الارم بجاسکتی تھی اور ہمارے لئے ایک پیچیدہ
سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ دوسری جانب یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس سے فائدہ نہ اٹھانا ہماری ”خفیہ روایات ” کے خلاف تھا۔ کسی بھی رسک کی صورت میں کامیابی کی توقع ففٹی ففٹی تھی۔ تاہم مس وینا کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات کا یقین تھاکہ اگر اس صورت حال میں مہارت اور چابکدستی سے کام لیا جائے تو اس بھارتی ماتا ہری کو شیشے میں اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ ہمارے لئے یہ ملین ڈالر چانس تھا جسے آزمایا جاسکتا تھا۔ ہم نے لمحوں میں حتمی فیصلہ کیا اور کچھ ہی دیر بعد ہمارے روم سروس والے اسی ویٹر نے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔ بظاہر وہ چائے کی ٹرالی واپس لینے گیا تھا ۔پلان کے مطابق اس نے کمرے کا دروازہ کھلا رکھا، وینا سے رسمی سلام دعا کی اور اس اثناء میں ہمارا کیس افسر بھی کمرے میں پہنچ گیا۔ یہ حکمت عملی اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ وینا اپنے سفارتخانے فون نہ کرسکے ۔ اگر کھنہ خود آتا تو اس صورت حال کے لئے بھی ہمارا ایک آدمی تیار تھا۔ منصوبے کے مطابق کیس آفیسر ہوٹل کے سیکورٹی ایگزیکٹو کے روپ میں کمرے میں داخل ہوا۔ اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کی سروس کے بارے میں معمول کی
گفتگو کرنے لگا۔ وینا کو ذرا برابر شک نہ گزرا۔ اس کے لئے سب معمول کی بات تھی۔ وہ انتہائی مطمئن اور خوشگوار موڈ میں تھی۔ ہمارے افسر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ساڑھیوں ، فلموں کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔ وینا نے اس گفتگو میں دلچسپی لینی شروع کردی اور ہمارے آفیسر کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ ”ویٹر” ٹرالی لے کر چلا گیا اور گفتگو کا موضوع ذاتی معلومات تک آگیا۔ ہمارا وار کاگر ثابت ہوا۔ وینا جلد ہی ہمارے کیس آفیسر کو تم تم کہنے کی حد تک آگئی ۔ وہ باتوں میں اس قدر محو ہوگئی کہ اسے سفارتخانے فون کرنا بھی یاد نہ رہا۔ ادھر کھنہ اور اس کے افسران بالا یقینی طورپر اس بات پر جام مسرت پی رہے ہوں گے کہ بالآخر انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ایک بڑی مچھلی کو اپنے جال میں پھنسالیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہمارے آفیسر کا لہجہ تبدیل ہوگیا اور اس کی گفتگو معنی خیز ہوتی گئی ۔ جب وینا کو احساس ہوا کہ ہوٹل کے اس آفیسر کو وینا کی اس کمرے میں آمد اور اس کے مقاصد سے پوری طرح آگاہی ہے تو وینا کی صورت ایک ایسے مجبور، بے کس اور بھوکے بچے کی سی ہوگئی جسے بیکری سے ڈبل روٹی چوری کرتے ہوئے رنگے
ہاتھوں پکڑلیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وینا نے اپنی داستان حیات سنانا شروع کردی۔ ”میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والدین نے میری پرورش اپنی انتہائی غربت اور کسمپرسی کے باوجود بڑے ناز و نعم سے کی ۔ میں نے دوہی سال پہلے گریجویشن کی ہے ۔ جہیز کی لعنت سے تو آپ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی یہ لعنت ابھی تک موجود ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ کئے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ہیں، بھارت میں بھی بہت سی لڑکیاں معاشرے کی اس دلدل میں پھنسے ہوئی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچر بنوں گی مگر کوشش کے باوجود مجھے نوکری نہ مل سکی۔ پھر ایک روز میری ایک دوست کے خاوند نے مجھے اپنے ایک دوست سے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور تمہارے لئے ملازمت کا بندوبست کرسکتے ہیں ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھارتی انٹیلی جنس سے ہے ، انہوں نے میرا سرسری سا انٹرویو لیا اور مجھے بتایا کہ میں تمہارے لئے نوکری کا انتظام
کرسکتا ہوں ، مگر یہ نوکری بھارت میں نہیں پاکستان میں بھارتی ایمبیسی اسکول میں ہوگی۔ یہ الفاط میرے لئے انتہائی خوش کن تھے۔ میرے لئے کسی دوسرے ملک میں جانے کا تصور ہی انتہائی دلکش تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ نوکری کا بندوبست تو ہوگیا ہے مگر پاکستان چونکہ ہمارا دشمن ملک ہے اس لئے تجھے چند ماہ کے لئے سیکورٹی ٹریننگ پر جانا پڑے گا۔ میں اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔ دراصل مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے بیرون ملک ملازمت مل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے ایک ایسی سرزمین دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا جس کے بارے میں میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ چند روز بعد ایک شخص ہمارے گھر آیا۔ اس نے مجھے تقرری کا خط دیا اور کہا کہ اگلے روز تجھے سیکورٹی ٹریننگ اسکول لے جانے کے لئے میں خود آؤں گا۔ وہ حسب وعدہ اگلے روز پھر آیا میں اپنے والد سے رخصت ہوکر اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئی۔ ایک طویل سفر کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچے ۔ یہ ایک پراسرار عمارت تھی اور دیکھنے میں سکول یا تربیت گاہ ہرگز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میرے علاوہ وہاں چار اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ جب کورس شروع
ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں کسی ٹیچر کی نہیں بلکہ جنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ چند ہی دنوں میں پتہ چل گیا کہ اصل میں ہم ٹیچر نہیں بلکہ جاسوس بناکر بھیجی جارہی ہیں۔ہمارے تربیتی سلیبس میں جسمانی ورزش ، ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ اور ایسے لیکچر شامل تھے جن کا مقصد پاکستان کے خلاف شدیدی نفرت پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے ”شکار” کو ذہنی طورپر اپنا تابع بنانا اور خفیہ راز معلوم کرنا بھی ہماری تربیت کا اہم حصہ تھا۔ ہمیں بلیو فلمیں دکھاکر بھی بتایا جاتا کہ کسی بھی مضبوط سے مضبوط اعصاب کے مرد کو کس طرح اپنا اسیر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہمیں جنسی اختلاط کے مختلف طریقے بھی بتائے جاتے تاکہ ہماری کارکردگی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ درحقیقت ہمیں باعزت طور سے جسم فروشی کی تربیت دی گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایک کامیاب جاسوس بننے کے لئے اپنی جسمانی خوبصورتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہی اصل ہنر ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تربیت سے اتفاق نہیں تھا مگر اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہم پوری طرح اپنے محسنوں کے جال میں پھنس چکی تھیں ۔ میں جانتی ہوں ج پاکستان میں جو کچھ بھی کر
رہی ہوں اخلاقیات کے مروجہ ضوابط کے خلاف ہے اور کوئی بھی باضمیر انسان اس دلدل میں کودنے کی جرات نہیں کرسکتا مگرمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ اب میرا اپنا وجود ، میرے والدین ، میرا گھر، میرا ضمیر، میری خواہشیں، میرے مستقبل کے سہانے خواب ، سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے ۔ اب اگر میں چاہوں بھی تو ان کے چنگل سے نکل نہین سکتی اور جب تک میرے جسم میں ذراسی بھی کشش باقی رہے گی یہ لوگ مجھے استعمال کرتے رہیں گے”۔ وینا ویں بات کر رہی تھی جیسے دور ویرانوں میں بھٹک رہی ہو اور اسے کوئی راستہ نہ سوجھ رہا ہو۔ اپنی کہانی سناتے سناتے اس نے کہا : ”حد تو یہ ہے کہ اس تربیت کے دوران ہمارے انسٹرکٹر بھی ہمارے جسموں کو اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لئے روندتے رہے